پردہ

Veils

Veils

اِسلامی ممالک میں پردہ مذہبی، تہذیبی اور وراثتی اقدار میں شمار ہوتا ہے اور ہر ملک اسے اپنے طور طریقے ، تہذیب و تمدن اور حالات کومدنظر رکھ کر فیشن اور سٹائل میں ڈھالنے کے بعد استعمال کرتا ہے جبکہ مغربی ممالک میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں سعودی عرب کی ایک مذہبی تنظیم المطویٰ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسا قانون بنائے جس میں خواتین اپنے شوہر یا سرپرست کے بغیر علاج معالجے کیلئے ڈوکٹر سے رجوع نہ کریں۔

انگریزی میں شائع ہونے والے ایک اخبار عرب نیوز کے مطابق تنظیم کا کہنا ہے کہ فضیلت کے فروغ اور گناہ کی روک تھام کیلئے مستقبل میں عورت ڈوکٹر کے پاس صرف اپنے شوہر یا سر پرست کے ہمراہ جا سکتی ہے خلاف ورزی کرنے والے پر فتویٰ جاری کیا جائے گا اسلامی قانون میں عورت کو اپنے شوہر یا سر پرست کے بغیر ڈوکٹر کے پاس جانے کی اجازت نہیں ہے اور مرد ڈوکٹر کو عورت کے جسمانی حصوں کی جانچ پڑتال اور بے نقاب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی خاص طور پر بچے کی پیدائش کے دوران اگر کوئی لیڈی ڈوکٹر دستیاب نہیں ہے تو مرد ڈوکٹر سے علاج کرایا جا سکتا ہے لیکن اس صورت میں سر پرست یا شوہر کا وہاں موجود ہونا لازمی ہے ، ہنگامی صورتِ حال میں خواتین کی حمایت میں صرف قریبی خاندان کے افراد جیسے کہ والد ، چچا ، بھائی ، بیٹا یا پوتا وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔

اخبار کے مطابق وزارتِ صحت نے ابھی کوئی سرکاری اعلان نہیں کیا تاہم تنظیم کے اس مطالبے سے خواتین کے حقوق کو پیچھے کی طرف دھکیلنے میں ایک بہت بڑا قدم ہو گا ،رپورٹ کے مطابق شاید ہی یہ سب کچھ ممکن ہو کہ عورت مرد کی سر پرستی میں ڈوکٹر کے پاس جائے۔

متاثر ہونے والے ایک شخص نے شکایت کی کہ یہ ایک سنگین مسئلہ اور ہمارے لئے بہت بڑا بوجھ ہے بہت سی خواتین کا کوئی سر پرست نہیں اور اگر کوئی ہے تو وہ اُس پر اعتبار اور انحصار نہیں کر سکتی کہ ہفتہ وار علاج کیلئے لے جایا جائے علاوہ ازیں ایمر جینسی میں وہ عورت اپنی جان بچانے کو ترجیح دے یا پہلے سر پرست کو تلاش کرے ڈوکٹر کے پاس جانا کسی ہئیر ڈریسر کی دوکان پر جانے کے مترادف تو نہیں۔

جدہ کلینک کے ایک ڈوکٹر ولید عبدل مجید کا کہنا ہے ہمیں ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی پیغام یا تحریری بیان موصول نہیں ہوا ہے لیکن میں خواتین مریضوں کو یہی کہوں گا کہ مَردوں کی سر پرستی کے بغیر بھی وہ علاج کیلئے آ سکتی ہیں میرا خیال ہے کہ مردوں کی سر پرستی یا دورانِ علاج موجودگی میں مریض بے چینی اور جھجھک محسوس کرے گا اور اپنی بیماری کو واضح طور پر بیان نہیں کر سکے گا۔

سعودی عرب میں ایک دوسرا قانون بھی نافذ ہوا ہے جس کے مطابق خواتین کار ڈرائیو نہیں کر سکتیں۔ اکتوبر دو ہزار تیرہ میں ٹریفک پولیس نے روٹین چیکنگ پر ایک خاتون کو دار الحکومت ریاض میں دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون سے فلم بناتے ہوئے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر سزا کی دھمکی دی تھی، لیکن رفتہ رفتہ کنگ شاہ عبداللہ نے متعدد اصلاحات لانے ، خواتین کو سماجی سر گرمیوں میں حصہ لینے اور تمام ریاستی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے مواقع پیدا کرنے شروع کئے ہیں جن میں خاص طور پر خواتین کے حقوق ، اختیارات ،پردہ ،حجاب اور پروفیشن قابل ذکر ہیں۔

پردہ ،حجاب جسے آج کل دنیا میں برقعہ کا نام دے کر پروپیگنڈا کرنے کے بعد نہایت نچلی سطح تک لے جانے کے بعد پامال کیا گیا وہ ایک عجیب سی کہانی یا نظارہ پیش کرتا ہے ۔ ” کیا پردہ لازمی ہے یا نہیں اور کیوں ” ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں نے لاتعداد اور طرح طرح کے تبصرے کئے جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ یا ردِ عمل بظاہر سامنے نہیں آیا ماسوائے یہ کہ مسلم ممالک میں لازمی ہے اور مغرب میں ممنوع قرار دیا گیا ہے دیکھا اور سوچا جائے کہ جب انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ انسان آزاد ہے لیکن قانون اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر جو چاہے کر سکتا ہے علاوہ ازیں مسلم ممالک کی تہذیب ، ثقافت اور وراثت میں ملنے والے نظریات کو بھی قطعاًنظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

Islamic Countries

Islamic Countries

ایک سروے ٹیم نے سات اسلامی ممالک کا برقعہ انڈیکس تیار کیا تھا جس میں مسلمان مردوں کا پردے کے بارے میں اظہارِ خیال بیان کیا کہ ایک مسلمان عورت کو کیسے اپنا پردہ کرنا چاہئے ؟ ” سر کو ڈھانپا جائے یا برقعہ پہنا جائے ”؟اس سوال کے جوابات حاصل کرنے کیلئے امریکا کی مشیگن یونیورسٹی کے محققین نے سات اسلامی ممالک کا سفر کیا اور سروے رپورٹ تیا ر کی کہ کون سا ملک اس موضوع پر لبرل ہے۔

کون سا نہیں ۔سروے کے مطابق مسلم ممالک میں زیادہ تر لوگ اس حق میں ہیں کہ عورت کو اپنا سر ڈھانپنا چاہئے اور چہرہ چھپا نہ ہو ، لیکن ترکی اور لبنان میں اکثریت کا کہنا تھا کہ عوام کے سامنے ہیڈ سکارف کا استعمال لازمی ہے ،جبکہ تیونس، مصر، پاکستان اور سعودی عرب میں جہاں مختلف اطوار سے پردہ کیا جاتا ہے لوگوں کی مختلف رائے تھیں ، افغانستان میں مکمل پردہ (برقعہ ) لازمی ہے ، ایران اور عراق میں سیاہ برقعہ پہنا جاتا ہے۔

اسلامی دنیا میں خوا تین کا پردہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور مغربی ممالک میں اکثر ان مو ضوع پر بحث بھی ہوتی رہتی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن حکیم میں عورت اور مرد کے حقوق مساوی بیان کئے گئے ہیں لیکن شرم اور رازداری کا بھی حکم صادر کیا گیا ہے اسی شرم اور رازداری کا دوسرا نام پردہ ہے کہ عورت کا کن مقامات پر پردہ لازمی ہے مثلاً بازاروں یا نمایاں جگہوں پر جہاں عوام کا ہجوم ہو پردہ لازمی ہے۔

لیکن ملک سے ملک میں ہر ایک کا اپنا علیحدہ طریقہ اور ڈھنگ ہے۔
مجموعی طور پر اسلامی ممالک کی اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ خواتین کو کم سے کم سفید سکارف یا چادر سے پردہ کرنا چاہئے، سعودی عرب میں لوگ خاص طور پر قدامت پسند ہیں لیکن جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ عورت اپنی مرضی اور سٹائل سے پردہ کر سکتی ہے تو اکثریت کا جواب ہاں میں تھا ، چھپن فیصد تیونس کے باشندے بھی اسی حق میں ہیں جبکہ مصریوں کا کہنا ہے کہ ہماری طرف سے آزادی ہے عورت جیسے چاہے پردہ کرے۔

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں انسانی حقوق اور بالخصوص خواتین کے موضوع پر گفت و شنید کے دوران مختلف ممالک میں مسلمان یہ ہی چاہتے ہیں کہ خواتین پردے میں رہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کب تک مسلمان اس تہذیبی ، موروثی اور روایتی اقدار کو قائم رکھ پائیں گے ، گزشتہ صدی سے مغربی دنیا نے جس تیز رفتاری سے وقت کے دھارے کا رخ موڑا ہے اس کی لپیٹ میں آکر ایک طرف اگر اسلامی ممالک کی صدیوں پرانی رسم وروایت اور تہذیب و تمدن کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

دوسری طرف نئی جنریشن کیلئے بے شمار ترقی کے راستے ہموار ہو ئے ہیں ،تیس چالیس سال قبل کومپیوٹر کے نام سے کوئی واقف نہ تھا جبکہ آج اسی مشین کے ذریعے اسلامی ممالک کے نوجوان گھر بیٹھے بٹھائے تعمیری امور، ایجوکیشن ، ملکی ترقی اور اپنے مستقبل کے بارے میں مفید انفور میشن حاصل کرنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کیا یہ نوجوان نسل مستقبل قریب میں ہماری موروثی روایات کو قبول کریں گے؟۔

کیا ہمیں اپنی تہذیب وتمدن کو برقرار رکھنا چاہئے یا وقت کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی نوجوان نسل کی خوشنودی اور مستقبل کیلئے پرانی روایات سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہئے؟

Shahid Shakeel

Shahid Shakeel

تحریر ۔۔۔ شاہد شکیل