تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان قرآن مجید فرقان حمید میں مہینوں کی تعداد سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے ” اللہ نے جب سے زمین وآسمان پیدا فرمائے ہیں اس وقت سے لے کر اسکے ہاں کتاب اللہ میں مہینوں کی کل تعداد بارہ ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں (التوبہ آیت 36)۔ ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک محرم الحرام ہے، اور محرم الحرام کے آغاز کے ساتھ ہی نئے اسلامی سال (سن ہجری) کاآغاز ہوتا ہے۔ اورہر نئے اسلامی سال کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے عظیم واقعہ کی یاد دلا کر اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو اعلائے کلمة اللہ کی خاطر تنگی و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے، اہل اسلام پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے جائیں ، ان پر عرصہء حیات تنگ کر دیا جائے تو ایسے کڑے وقت میں وہ کفر کے ساتھ رواداری والا رویہ اپناتے ہوئے اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا نہ کریں بلکہ اپنے دین وایمان کی حفاظت میں اپنا سب کچھ لٹانا پڑے تو لٹا دیں ،لیکن اپنی استقامت میں لغزش پیدا ہونے نہ دیں۔ مسلمانان اسلام کے لئے نئے اسلامی سال کا آغاز صالح انقلاب کا نقیب اور انتہائی عظیم قربانیوں کاپیامبر ہے۔دیگرمذاہب کے سال نو پر رقص وسرور کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، شراب کے جام چھلکائے جاتے ہیں،نوجوانوںکوشباب میں مدہوش کیاجاتا ہے،موسیقی کے سراورتال پرخواتین کے تھرکتے ہوئے جسموں کی نمائش کی جاتی ہے،دنیاکاایک بڑاطبقہ نئے سال کے جشن میں ناچ،گانے،شراب و شباب،فحاشی،عریانیت اور جنسیت میں ڈوب جاتاہے، شیطانیت اپنے عروج کے نقطہء انتہاپرہوتی ہے،عورتوں اور مردوں کااختلاط ہوتاہے، جشن کایہ طریقہ یہودونصاری کاتوہوسکتاہے مگر اہل اسلام کانہیں۔ کیونکہ اسلام تو اختتامی سال کے آخری اور نئے سال کے پہلے ہی دن سے قربانی وایثار کادرس دیتا ہے۔ اسلامی نیاسال توصالح انقلاب کا نقیب ہوتا ہے۔
اہل اسلام مغربی تہذہب کے دلدادہ نہیںبلکہ پروردہ آغوش غیرت ہوتے ہیں،عصمت فروش نہیں بلکہ عفت وعصمت کے محافظ ہوتے ہیں ، تہذیب وتمدن کے نام پرانسانیت کی دھجیاں نہیں اڑاتے بلکہ اخلاق کی اعلیٰ قدروں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پرایک طائرانہ نظر ڈالئے کہ جب مکہ میں مسلمانوں پر عرصہ ء حیات تنگ کیا گیا وہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو کفار کو اسلام کا یوں پنپنا ہضم نہ ہوسکا، انہوں نے ایک بہت بڑا اتحاد جمع کرکے مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا جسکے نتیجہ میں غزوہ احزاب یا غزوہ خندق ہوا۔ وہ اس سے قبل بدر واحد میں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کے تجربات کر چکے تھے لیکن اب کی بار بھی کفر کے اتحاد نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے کامرانی کے دروازے کھول دیے۔ اتحادیوں کے پاؤں اکھڑتے ہیں مدینہ کے ارد گرد میں موجود تمام تر یہودی قبائل کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوںکے آگے زیر کر دیا ، امارت اسلامیہ پھلنے پھولنے لگی ، اموال غنائم سے مسلمانوں کی معاشی حالت فورا سنبھل گئی اور فتوحات کا یہ سلسلہ فتح مکہ تک جا پہنچا ، جسکے بعد فتوحات اسلامیہ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اسلامی سال کے پہلے مہینے یعنی محرم الحرام کا دسواں روز یوم عاشورہ کہلاتا ہے اس روز کی قرآن و احادیث میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اس روز کے متعلق مشہور ہے کہ دس محرم الحرام کو یوم عاشورہ اسلئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن اللہ ربّ العزت نے دس پیغمبروں(علیہ السلام) کو دس اعزازات عطاء فرمائے ،اسی وجہ سے یہ دن یوم عاشورہ کہلاتا ہے۔ علماء کرام کے مطابق اسی روزحضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت ادریس علیہ السلام کومقام رفیع پر اٹھایا گیا۔حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ سیدناابراہیم علیہ السلام پیداہوئے اوراسی روزرب کائنات نے انکواپنادوست (خلیل) بنایا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کوآگ نمرودسے بچایا گیا۔ حضرت دائودعلیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ،حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی واپس ملی، حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری ختم ہوئی،حضرت موسیٰ علیہ السلام کودریائے نیل سے راستہ ملا، اور فرعون غرق کردیا گیا۔اسی روز سیدنایونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالے گئے ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوآسمان پراٹھا لیا گیا ، محبوب خدا سرورانبیاء ،احمدمجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور تخلیق ہوا۔ اوراسی یوم عاشورہ کے دن امام عالیٰ مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جام شہادت نوش کیا ، اور اس طرح ظالم و مظلوم، حق و باطل کے درمیان اس عظیم معرکہ کو کربلا کے نام سے تاریخ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا ۔
اسلام ایثارکی تعلیم دیتاہے،حتیٰ کہ ختم ہوتاہوا اسلامی سال حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل علیہم السلام کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتاہے اور نئے اسلامی سال کا پہلا دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یوم عاشور سیدالشہدا امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا کی راہ خدامیں پیش کی گئی عظیم قربانیاں اسلام کی سربلندی کے لیے قربانی کا جذبہ بیدار کرتی ہے۔ بلاشبہ سیدالشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت وقربانیاں ہمارے لیے نمونہ عمل اور حوصلوں کی بلندی کاسبب ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ” اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں ہجرت کی اور جان و مال سے جہاد کیا۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جہاں ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والے عیش کے سامان ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقینا اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کے لئے بہت کچھ ہے”(التوبہ آیت 19 تا21 )۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہجرت و شہادت جیسے معیاری و مطلوبہ اوصاف ہی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ او ر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی محبت ، دین اسلام کی دعوت و اشاعت ، برائیوں کے ازالہ کے لئے پیہم کوشش، فکر آخرت اور دنیا سے بے رغبتی ممکن ہے۔ جس بندہ مومن کے اندر یہ اوصاف پروان چڑھیں اسے دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہوگی۔
آنے والا ہر نیا اسلامی سال زندہ دلوں پر صراط المستقیم پر چلنے کی دستک دیتا ہے اور یہ جائزہ لیتا ہے کہ ہم کس قدر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پسندیدہ اعمال و افعال، اورا سلام کی سربلندی کے لئے جذبہ رکھتے ہیں۔ پس ہم اہل اسلام کو اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اچھی عادات اور مثالی اخلاق کو اپنا شعار بنانا چاہئے ، اور بری عادات کو ترق اور سماجی برائیوں سے اجتناب کرنا چاہئے تاکہ غیر مسلم بھی ہمارے عمدہ اخلاق سے متاثر ہوکرمسلمان بنیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نئے اسلامی سال کو امت مسلمہ کے لئے فلاح و کامیابی، راحت اور خوشیوں کا با عث بنائے ، اور ہمیں اعمال صالحہ کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان ای میل :ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033