تحریر : رضوان اللہ پشاوری اسلامی سال کے پہلے مہینہ محرم الحرام میں ایک دن ہے جو کہ جس کو بڑی فضیلت حاصل ہے اور یہ دن محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو ہوتی ہے جسے ”عاشورائ”کہا جاتا ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم یومِ عاشوراء میں ہم کو روزہ کا حکم فرماتے تھے ،ہمیں اس کی ترغیب دیا کرتے تھے اور اس طرف متوجہ کرتے تھے ، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تورحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو نہ صومِ عاشوراء کاحکم فرماتے اورنہ اس سے منع فرماتے اورنہ ہی اس دن کے لیے ہماری خبر گیری کرتے ۔(مشکوٰة )
یوم عاشوراء پہلے ہی سے محترم ہے : اتنی بات ضرور ہے کہ عاشوراء کی حرمت و فضیلت پہلے ہی سے مسلَّم ہے ،حتٰی کہ بعض علماء نے فرمایا کہ محرم الحرام کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس مہینہ میں یومِ عاشوراء ہے ۔(مظاہرِ حق جدید)اور احادیثِ صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش مکہ بھی عاشوراء کا بہت ہی اہتمام کرتے تھے ،اس دن روزہ رکھتے ،اس دن خانۂ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے ، پھر زمانۂ اسلام میں خود رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس دن کے روزہ کا اہتمام فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے ،جیسا کہ حدیث میں مذکورہے ۔
محقق اسلام حضرت مولانا محمد منظور نعمانی فرماتے ہیں: قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں ان تک پہنچی ہوںگی اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے ان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے ،اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے ،پس اپنے اس اصول کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ و سلم قریش کے ساتھ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ۔(معارف الحدیث)
بہر کیف ! یومِ عاشوراء پہلے ہی سے محترم ہے ،منجانب اللہ اہم ترین اور نہایت عظیم الشان واقعات اس دن رونما ہوئے ہیں ،اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے محبوب نواسہ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے بھی یہ بات باعث سعادت ہے کہ ان کی شہادت بھی اس عظیم الشان یادگار دن میں ہوئی، حالاںکہ اسلام میںاور بھی ایسے بے شمار واقعات ہیں۔ مثلاً اسلام کی سب سے پہلی شہیدہ سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کی شہادت کا واقعہ،اسی طرح سید ا لشہداء حضرت امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ،نیز خادم القرآن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ انتہائی المناک ہے ۔ اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیںملتی،لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کوعام لوگوںمیں زیادہ اہمیت اس لیے ہو گئی کہ وہ اس فضیلت والے دن میں واقع ہوئی ۔
عاشوراء عبرت وعبادت کا دن ہے : عاشوراء عبرت وعبادت کا دن ہے ،اس دن میں جتنے عظیم الشان اہم ترین واقعات پیش آئے ان میں سے ہر ایک میں عبرت و موعظت کے بے شمار پہلو موجودہیں، خصوصاً واقعۂ کربلا میں ،پھر آج کی دنیا عاشوراء کو واقعۂ کربلا کے حوالے سے ہی اکثریاد کرتی ہے ،حالاںکہ شہدائِ کربلا کا سانحہ یومِ عاشوراء کو پیش آنا ایک اتفاقی واقعہ ہے ،لیکن چوںکہ عبرت کے دن میںیہ عبرت ناک واقعہ پیش آیا ہے ،اس لیے بھی اس سے درسِ عبرت لینے کی ضرورت ہے ،اور خرافات و بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے عبادات بالخصوص روزہ کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ، پھر جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ مہینہ اور دن نہایت محترم ہے ، عبادت کا مہینہ ہے ، تو اس میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں،نکاح بھی نیک کا م ہے ، صرف سماجی ضرورت ہی نہیں،بلکہ ایک اعتبار سے عبادت ہے ،لہٰذا اس مہینہ اور اس دن میں موقع آ جائے تو اسے بھی ضرور بالضرور کرنا ہی چاہیے ، البتہ اس دن کی خاص عبادت روزہ ہے ،جیسا کہ حدیث مذکور سے واضح ہوتا ہے ۔
صومِ عاشوراء کا حکم : حضور صلی اللہ علیہ و سلم اورحضراتِ صحابۂ کرام رمضان کی فرضیت سے پہلے بھی صومِ عاشوراء رکھتے تھے ، احناف کے نزدیک صومِ رمضان سے قبل صومِ عاشوراء فرض تھا ،صومِ رمضان کی فرضیت کے بعد صومِ عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور استحباب باقی رہا ،پھر اس استحباب کے بھی تین درجے ہیں:(1)یومِ عاشوراء کے ساتھ ایک دن قبل اور ایک دن بعد بھی روزہ رکھے ، یعنی محرم کی نو،دس اور گیارہ تاریخ کو روزہ رکھا جائے ۔( 2)دوسرا درجہ یہ ہے کہ عاشوراء کے ساتھ یاتو نو کو یا گیارہ کو روزہ رکھا جائے ۔( 3)اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ فقط عاشوراء ہی کو روزہ رکھا جائے ،لیکن چوںکہ اس دن یہود بھی روزہ رکھا کرتے تھے اور حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی مخالفت کا حکم فرمایا، اس لیے تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے : وَتَنْزِیْھًَا کَعَاشُوْرَائَ وَحْدَہ(مظاہرحق جدید)
صومِ عاشوراء کی فضیلت : حدیثِ پاک میں صومِ عاشوراء کی فضیلت بھی وارد ہے کہ: صوم ِ عاشوراء کی برکت سے امید ہے کہ حق تعالیٰ گذشتہ ایک سال کے گناہ (صغیرہ )معاف فرمادیں گے (مسلم،مشکوة)انسان خطاء و نسیان کا پتلاہے ، روزانہ نہ جانے کتنے گناہ کرتا ہے اور پورے ہفتے ، مہینے اور سال بھر میں تو نہ جانے کتنے گناہوں کے انبار لگاتا ہے ،اب اگر کوئی خوش قسمت صومِ عاشوراء وغیرہ کا اہتمام کرے تو ایک سال قبل کے تمام صغائر اور سچی پکی توبہ سے تمام کبائر بھی ان شاء اللہ معاف ہو جائیں گے،پھریہ عاشوراء ہمارے باپ سیدنا آدم اور سیدناداؤد علیہما السلام کی معافی کا دن ہے ، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی اس دن روزہ کے ساتھ توبہ اور استغفار کا اہتمام کریں۔
ایک حدیث میں ہے کہ چار چیزوں کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ اہتمام فرمایا: صومِ عاشوراء ،عشرئہ ذی الحجہ کے نو روزے ،ہر ماہ کے تین روزے اور نمازِ فجر سے پہلے کی دورکعات سنتیں۔(مشکوٰة،رواہ النسائی)
ایک عبرت ناک واقعہ : منقول ہے کہ ایک شخص تنگ دست فقیر تھا ،اس نے اور اس کے گھر والوں نے عاشوراء کے دن روزہ رکھا، افطاری کا کوئی انتظام نہیں تھا ،اس لیے مجبوراً قرض لینے کی غرض سے ایک مسلمان کے پاس گیا، جو نہایت خوش حال تھا ،فقیر نے جا کر سلام عرض کر کے کہا: بھائی ! میں سخت ضرورت مند ہوں، آپ مجھے ایک درہم بطورِ قرض دے دیجئے ، تاکہ میں اس سے افطار کا سامان خرید سکوں، سنار نے بات سنی اَن سنی کردی اور اس کی ضرورت پوری نہ کی،تو فقیرشکستہ دل ہو کر وہاں سے لوٹا ،قریب میں ایک یہودی تھا، اس نے صورتِ حال دریافت کی، تو فقیر نے اپنا دکھڑا سنا دیاکہ آج عاشوراء کا دن ہے ، میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ روزہ سے ہوں، گھر میں افطار کے لیے کچھ موجود نہیں ،اس لیے اس کے پاس ایک درہم قرض لینے آیا تھا ،مگر اس نے انکار کر دیا ۔
اس یہودی نے رحم کھاکر دس درہم ہدیةً دیے اور دعا کی درخواست کی،فقیر نے خوشی خوشی ضرورت پوری کی اور اپنے گھر والوں پر خرچ کر دیے ،رات ہوئی تو سنار نے عجیب خواب دیکھا کہ قیامت قائم ہو گئی ،پیاس اور گرمی بہت بڑھنے لگی ،اچانک دیکھا کہ ایک سفید موتیوں کا محل ہے ، سرخ یاقوت دروازے میں جڑے ہوئے ہیں ،پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر اس نے پانی طلب کیا ،تومحل سے آواز آئی کہ:کل تک تو یہ محل تمہارا تھا ،مگر آج عاشوراء کے دن فقیر کوشکستہ دل لوٹانے کی وجہ سے تمہارا نام مٹا کر اس یہودی کا نام لکھ دیا گیا ہے ۔
صبح ہوئی تو سنار بہت نادم اور شرمندہ ہوا، فوراً یہودی کے پاس گیا اور کہنے لگا:کل جودس درہم تم نے فقیر کو دیے تھے اس کا ثواب مجھے سو درہم میں بیچ دو،یہودی نے کہا: ایک ہزار میں بھی نہیں بیچوںگا،خواب دیکھ کر آئے ہو نا ! سنار کو سن کر بڑا تعجب ہوا ،کہا:تمہیں اس خواب کا کس طرح پتہ چلا ؟کس نے بتایا ؟کہنے لگا:مالک ِکن فیکون کی طرف سے معلوم ہوا ،پھر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ (ماہنامہ المحمود)
عاشوراء کے دِن اہل وعیال پرحدیث وسعت کی حقیقت : میراخیال تو یہ ہے کہ جب دوسروں کے ساتھ یومِ عاشوراء میں وسعت کرنے سے یہ فضیلت حاصل ہو سکتی ہے ،تو خود اہل وعیال کے ساتھ وسعت کرنے پر تو بدرجہ اولیٰ یہ فضیلت حاصل ہوگی، چناںچہ ایک حدیث ہے :جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیا ل کے ساتھ وسعت کا معاملہ کرے گا، دل کھول کر خرچ کرے گا، توحق تعالیٰ اس کے ساتھ پورے سال وسعت اور فراخی کا معاملہ فرمائیں گے ۔(رواہ رزین، والبیہقی فی شعب الایمان، مشکوٰة)مشکوٰة میں ہے کہ حضرت سفیانِ ثوری فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیاہے اورہم نے اس کو اسی طرح پایا ہے ۔ اس روایت کے متعلق فقیہ العصر علامہ خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ فرماتے ہیں:یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت جابر اور حضرت ابو ہریرہ سے منقول ہے ، طبرانی اور بیہقی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے ،لیکن محدث بیہقی نے لکھاہے کہ یہ حدیث جتنی سندوں سے منقول ہے ،سب ہی ضعیف ہیں،بلکہ علامہ ابن جوزی نے تو اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ،البتہ حافظ ابن عبد البر اور محدث دار قطنی نے حضرت عمر سے اس طرح کا خود ان کا قول نقل کیا ہے ، اور اس کی سند بھی قابل قبول ہے ۔(کتاب الفتاویٰ )
اس لیے ثواب کی نیت سے تو نہیں ،لیکن حصولِ وسعت رزق کی نیت سے اس پر عمل کیا جا سکتا ہے ،اسی کے ساتھ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ وسعتِ رزق کے اور بھی کئی نافع ترین نسخے ہیں ،جن میں سب سے بڑا کامیاب ترین نسخہ ترکِ گناہ (تقویٰ)ہے ۔
یوم الزینہ سے یومِ عاشوراء مراد ہے : الغرض! یہ دن بڑا محترم دن ہے ،عبرت ،عبادت اور اہل و عیال پر وسعت کا دن ہے ، یہ دن امم سابقہ کے نزدیک بھی فضیلت والا سمجھا جاتا تھا،چناںچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں جب فرعونِ مصر نے ملک کے کونے کونے سے بڑے بڑے جادوگروں کو اکٹھا کرنے کا ارادہ کیا تو اس سلسلہ میں دن اور وقت کی تعیین کے سلسلہ میں سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا:تم سے وہ دن طے ہے ، جس میںجشن منایاجاتاہے ، او ریہ بھی طے ہے کہ دن چڑھے ہی لوگوں کوجمع کرلیاجائے ۔(طٰہ)تمہارے وعدے اور مقابلہ کا دن وہ ”یوم الزینہ”ہے ، یعنی تمہارے جشن کا دن، اس میںسب لوگ دن چڑھے جمع ہو جاتے ہیں،اس وقت مقابلہ ہو گا، حضرت ابن عباس اور سعید بن جبیرسے منقول ہے کہ یہ ان کے جشن کا دن جو مقابلہ کے لیے طے ہوا تھا دسویں محرم یومِ عاشوراء تھا۔(گلدستہ تفاسیر)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس دن ہمارا کام روزہ،استغفار، عبرت،عبادت اور اہل وعیال پر وسعت کرنا ہے ۔حق تعالیٰ ہمیںحقائق سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین) جَزَی اللّٰہُ عَنَّا مُحَمَّداً صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا ہُوَ أَہْلُہ