اسلاموفوبیا کا خاتمہ وقت کی ضرورت، مسلم علما

New Zealand Incident

New Zealand Incident

کرائسٹ چرچ (جیوڈیسک) نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں ساڑھے تین سو سے زائد مسلم علما، اسکالرز اور رہنماں نے مغربی ریاستوں کی حکومتوں اور میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کے انسداد کے لیے کوششیں بڑھائیں۔

مسلم علما، اسکالرز اور رہنماں کی جانب سے تحریر کردہ اس اپیل میں منظم اور اداروں تک کی سطح پر پائے جانے والے اسلاموفوبیا کے انسداد کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ مسودہ برطانوی اخبار دا گارڈیئن میں آج منگل 19 مارچ کو چھپا۔ اس میں تحریرہے کہ نیوزی لینڈ میں قتل عام اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے ہوا۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ پندرہ مارچ کو دائیں بازو کے دہشت گرد نے دو مساجد پر حملے کرتے ہوئے پچاس افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والا دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس تناظر میں دنیا بھر میں مسلم ممالک اسلاموفوبیا کے انسداد کے لیے مطالبات کر رہے ہیں۔

سامنے آنے والی اس اپیل پر جرمنی، برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، عراق اور اردن سے تعلق رکھنے والے تقریبا ساڑھے تین سو سے زائد مسلم رہنماں، علما، اسکالرز اور دیگر سرکردہ شخصیات نے دستخط کیے۔ ان لوگوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت آمیزی بڑھانے میں چند بے پرواہ سیاستدان، تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد اور ذرائع ابلاغ کے کچھ ادارے بھی ملوث ہیں: مسلمانوں کا یہ قتل عام حملہ آور کی بندوق سے نکلی گولیوں سے شروع نہیں ہوا بلکہ یہ کئی دہائیوں کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ اسلام سے خوف پر مبنی میڈیا رپورٹس، مسلمانوں سے نفرت کرنے والے سیاستدان اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پایا جانے والا بے لگام تعصب ہے۔

مسلم علما، اسکالرز اور رہنماں نے تنبیہ کی ہے کہ نسل پرستی اور اجنبیوں سے خوف میں اضافے کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں، جو تہذیب یافتہ معاشروں کے لیے ایک جیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے مقصد اور سمجھ سے بالاتر تشدد کے اس چکر کو ختم ہونا چاہیے۔ مغربی ریاستوں کی حکومتوں اور میڈیا پر زور دیا گیا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے گروپس ایک حقیقی خطرہ ہیں اور اس ضمن میں عوام کو آگاہ کیا جانا اور حفاظتی اقدامات لازمی ہیں۔