گزشتہ دنوں کینیڈا میں ایک مسلم خاندان کے قتل نے مغرب کی روشن خیالی ،نام نہاد آزادی اظہار رائے اور حقوق انسانی کے کھوکھلے نعروں کو بے نقاب کر دیا۔اگرچہ کینڈین وزیر اعظم نے اپنے ملک میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کا اعتراف بھی کیا۔ افسوس! مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔مذہبی تعصب کی بنا پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے گھنائونے واقعات معمول بن گئے ہیں جیسا کہ کینیڈا ہی کے ایک علاقے سکاٹون میں نفرت انگیزی کے ایک اور واقعہ میں چاقو کے پے درپے وار کر کے ایک پاکستانی محمد کاشف کو شدید زخمی کر دیا اور ان کی داڑھی بھی کاٹ دی۔محمد کاشف کے مطابق حملہ آور مغلظات کہتے رہے اور کہا کہ تم اپنے ملک واپس چلے جائو۔واضح رہے کہ اس سے قبل کینڈا کے علاقے سینٹ البرٹ میں دو مسلم خواتین پر حملے ہوئے ، چاقو برادر سفید فام شخص نے انہیں دھکے دیئے اور ان مسلمان عورتوں کے حجاب بھی کھینچے۔
اسی طرح ٹورنٹو میں ایک مرو اور عورت نے مسجد میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی ۔کینیڈا میں ایسے واقعات کا تسلسل حیران کن ہی نہیں مہذب مغربی دنیا کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے ۔لہذا کینیڈا کے وزیر اعظم کا یہ فرض بنتا ہے کہ کینیڈا کا سافٹ امیج برقرار رکھنے کے لئے مسلم مخالف لہر پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں۔اس سے پہلے30 جنوری2017ء کو بھی کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں ایک مسجد پر حملے کے نتیجے میں6نمازی شہید ،8 زخمی ہوئے تھے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق 2013ء کے بعد مسلمانوں کے خلاف نسلی و مذہبی بنیادوں پر جرائم میں اضافہ ہوا۔2010ء کی پیو ریسرچ کے مطابق کینیڈا میں مسلم آبادی کا تناسب 7.6 فیصد ہے ۔اقوام متحدہ کی کینیڈا میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے رپورٹ 2020 ء میں انکشاف کیا گیا ہے کہ46فیصد کینیڈین لوگ اسلام کے متعلق نامناسب خیالات رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کینیڈا کے میڈیا میں بھی مسلم مخالف مواد کی تشہیر کی جاتی ہے البتہ مسلمانوں پر حملوں کو کم کوریج دی جاتی ہے۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ’ اسلامو فوبیا’ نامی اس بیماری کا آغاز کسی نہ کسی شکل میں خود اسلام کے ظہورکے ساتھ ہی ہوچکا تھا،کفار و مشرکین نے خدا کی وحدانیت، غلاموں کی آزادی، طبقہ بندی کا خاتمہ اور عدل و مساوات کا مطالبہ کرنے والے ایک نئے مذہب کو ظہور پذیر ہوتے ہوئے دیکھا تو انہیں اپنے قدیم مذہب کو لے کر خوف ہونے لگااور یہ اندیشہ دامن گیر ہوگیا کہ کہیں ہم اپنے آبائو اجداد کے رسوم ورواج سے محروم نہ کردیے جائیں۔یہی خوف رفتہ رفتہ بڑھتا گیا،جب خدا کے رسول ۖنے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیاتو کفار و مشرکین کے دلوں کا خوف نکل کر باہر آگیا ۔آج بھی دنیا بھر کے کفار کواسلام کی حقانیت اورصداقت معلوم ہے، تاریخ پر ان کی نظر ہے، قرآن وحدیث کامطالعہ کرتے ہیں؛لیکن اسلام سے وحشت اوردہشت کی وجہ سے ان پر خوف طاری ہے کہ اسلام پھیل رہاہے ایک دن اسلام کوضرورغلبہ حاصل ہوگا، جس کی وجہ سے کفارکے پیشوا اورمفکرین ذہنی مریض بن گئے ہیں،اس بیماری کو’سلاموفوبیا ‘کہتے ہیں۔اسلاموفوبیا کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔
یہ ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے۔ تاہم نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ۔ اسلاموفوبیا کی مختلف تعریفیں پیش کی گئی ہیں۔ اس سے مراد اسلام، مسلمانوں یا اسلامی تہذیب سے نفرت یا خوف کرنا ہے۔ جس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ اسلام ایک متعصب دین ہے جس کا رویہ دیگر مذاہب کے ساتھ متشددانہ ہے نیز یہ کہ مسلمان ہر اس چیز کو ردّ کر دیتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہو۔ اسلاموفوبیا میں ملوث افراد یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام رواداری، مساوات اور مغربی نظریہ جمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ ‘اسلاموفوبیا’ کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاتا ہے۔اسلام کے خوف اور اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم اب ایک طرح کی پوری صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس منافع بخش صنعت کو مسلمانوں کے مخالف ادارے اور افراد فراخدلی سے مالی امداد دیتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق صرف 2013ء میں اس سلسلے میں امریکہ میں 205 ملین ڈالرز کے عطیات اسلام مخالف تحقیقی اداروں کو دیے گئے۔
یہ ادارے اپنی ساکھ بڑھانے کے لیے عموماً تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور لکھاریوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ان اداروں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2010ء میں ایسے اداروں کی تعداد تقریباً پانچ تھی جو 2018ء میں تیزی سے بڑھتے ہوئے 114 کے قریب پہنچ گئی ہے۔ درحقیقت اسلاموفوبیا میں اہلیانِ مغرب و یورپ اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہیں نہتے مسلمانوں پر ہونے والا ظلم و ستم نظر نہیں آتا۔ اسلاموفوبیا کا شکار شخص اس واہمے کا اسیر ہوجاتا ہے کہ تمام یا بیش تر مسلمان مذہبی جنون کی وجہ سے غیر مسلموں کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتے ہیں۔ بعض ماہرینِ سماجیات کے نزدیک اہلیان مغرب و یورپ کے اسلاموفوبیا کے مرض میں جکڑے رہنے کا عمل اور عالمی اداروں کی غفلت تہذیبوں کے تصادم کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہوں کے حوالے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ طرزِ عمل اسلام مخالف رویہ پر مبنی ہے اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے حالانکہ تمام حکومتیں بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کی پابند ہے۔