تحریر : محمد اشفاق راجا اسرائیل سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک ہے۔ امریکہ بھی ہر جائز و ناجائز طریقے سے اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل کو جب بھی موقع ملتا ہے امریکی لیڈروں اور حکمرانوں پر چڑھ دوڑتا ہے۔ تازہ ترین ہدف صدر اوباما بنے ہیں جو 20 جنوری کو عہدہ چھوڑنے والے ہیں اور اس وقت دنیا کے الوداعی دورے کر رہے ہیں۔ تازہ اسرائیلی غضب صدر اوباما پر اس قرارداد کی وجہ سے نازل ہوا ہے جو سلامتی کونسل نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر نئی اسرائیلی بستیاں بسانے کے سلسلے میں منظور کی ہے۔ اگرچہ اس امر کا امکان تو نہ ہونے کے برابر ہے کہ اسرائیل اس قرار داد پر عمل کرے گا، یہ قرارداد بھی حسب سابق ردی کی ٹوکری میں جائیگی۔ تاہم وزیراعظم نیتن یاہو اس کی منظوری پر بہت سیخ پا ہیں۔ اسرائیل کا موقف یہ ہے کہ اگرچہ رائے شماری کے وقت امریکی نمائندہ حاضر نہیں تھا، لیکن قرارداد کا متن اس کا تیار کیا ہوا ہے اور صدر اوباما اس کے پیچھے ہیں، صدر اوباما نے جب ایران کے ساتھ نیو کلیئر معاہدے کی منظوری دی تھی اور خدشہ تھا کہ کانگرس اسے مسترد کر دے گی تو بھی کانگرس کی اشیر باد سے اسرائیل کے وزیراعظم کو خطاب کی دعوت دی گئی، جنہوں نے صدر اوباما کو بے نقط سنائیں۔
کانگرس کے ارکان نے ایرانی صدر حسن روحانی کو ایک خط بھی لکھ دیا جس میں ان سے کہا کہ وہ خود ہی امریکہ کے ساتھ معاہدے سے دستبردار ہو جائیں، کیونکہ اگلا امریکی صدر اس معاہدے کو منسوخ کر دے گا۔ اس وقت تک کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو سکیں گے، بلکہ یہ تک کہا جا رہا تھا کہ ری پبلکن پارٹی انہیں اپنا امیدوار بھی نہیں بنائے گی، لیکن وہ نہ صرف امیدوار بنے بلکہ ری پبلکن پارٹی کے بعض سینئر رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود صدر بھی منتخب ہوگئے۔ اس لئے اسرائیل ان پر دباؤ ڈال کر امریکہ کو جوہری معاہدے کے خاتمے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ وہ معاہدہ ختم کرنے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ یہ امریکی اور عالمی مفاد میں نہیں ہوگا، تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی حمایت میں کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں اور دیکھنا ہوگا کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد کیا کرتے ہیں۔ نہ صرف ایران کے بارے میں امریکی پالیسی بدلے گی بلکہ خارجہ پالیسی میں بہت سی تبدیلیوں کا امکان ہے۔
روس کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی تبدیل ہوگی، کیونکہ انہوں نے تیل کی کمپنی ایکسون موبل کے چیف ایگزیکٹو کو وزیر خارجہ نامزد کیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے روسی صدر کے ساتھ نہ صرف دوستانہ مراسم ہیں بلکہ ان کے کاروباری مفادات بھی ہیں۔ روسی صدر پیوٹن نے امریکہ کے دورے کا عندیہ بھی دیا ہے، اسی طرح میکسیکو اور کیوبا کے بارے میں بھی ٹرمپ کی پالیسی بدلے گی۔ ابھی حال ہی میں جب کیوبا کے سابق صدر فیڈل کاسترو کا انتقال ہوا تو ٹرمپ نے انہیں بڑے بْرے الفاظ میں ”خراج عقیدت” پیش کیا۔ اسی طرح بھارت کے بارے میں بھی ان کی محبت چھلک چھلک کر باہر آرہی ہے۔
Netanyahu and Putin
مشرق وسطی میں تو وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ شام میں نئی پالیسی روس کے ساتھ مل کر بنا سکتے ہیں، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ 2017ئ میں امریکی خارجہ پالیسی کے خدوخال تبدیل ہو جائیں گے اور پالیسی میں ایسی تبدیلیاں آجائیں گی جن کا اب تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ سی آئی اے کے اس دعوے کا مضحکہ اڑاتے رہتے ہیں کہ عراق کے صدر صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔ سی آئی اے نے انہیں عالمی حالات پر بریفنگ دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے یہ کہہ کر سی آئی اے کے حکام کی ”بے عزتی” کر دی کہ وہ گھسی پٹی باتیں کرنے کے عادی ہیں، جن سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ مجھے اگر ان یبوست زدہ معلومات کی ضرورت ہوگی تو ان سے معلوم کرلوں گا۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا اعلان وہ پہلے ہی کرچکے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے وصول کئے جائیں گے۔ ایسے میں مبصرین امریکی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔اسرائیل نے امریکہ اور یہودی بستیوں کے خلاف قرارداد کے محرک ملکوں سمیت دس ملکوں کے سفیروں کو طلب کرکے ان سے قرارداد کی منظوری پر احتجاج کیا ہے۔
اسرائیل کا خیال ہے کہ واشنگٹن نے قرارداد کی منظوری کے لئے فلسطینیوں کے ساتھ سازباز کی ہے، جبکہ امریکی ترجمان نے اسرائیل کے اس الزام کو غلط قرار دیا ہے۔ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی اہمیت اس لئے بھی ہے اور نیتن یاہو کا پارہ بھی اس لئے چڑھا ہوا ہے کہ 37 سال بعد یہودی بستیوں کے خلاف اس طرح کی قرارداد منظور ہوئی ہے۔ اس سے پہلے 1979ء میں ایسی قرارداد منظور ہوئی تھی، امریکہ نے قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کا فیصلہ کرکے اسرائیلی قیادت کو سیخ پا کر دیا۔ قرارداد کی تاریخی منظوری کے موقع پر اجلاس میں زبردست خیر مقدم کیا گیا اور ڈیسک بجائے گئے۔
حالانکہ منتخب صدر ٹرمپ نے کوشش کی تھی کہ قرارداد منظور نہ ہوسکے۔ اگرچہ قرارداد میں اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی پابندیوں کی بات تو نہیں کی گئی اور صرف یہودی بستیاں بسانے سے باز رہنے کے لئے کہا گیا ہے تاہم اسرائیل کو خدشہ یہ ہے کہ اس قرارداد کی منظوری سے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر ہونے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اتوار کے روز اسرائیل میں چھٹی نہیں ہوتی۔ تاہم کرسمس کے موقعہ پر سفیروں کی دفتر خارجہ میں طلبی غیر معمولی بات سمجھی گئی ہے۔ قرارداد نیوزی لینڈ، سینی گال، وینزویلا اور ملائیشیا نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی۔