اقوام متحدہ کا ادارہ رکن ممالک کے درمیان تنازعات کے حل سمیت کئی تصفیہ طلب امور کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ تاہم امریکا کے اثر و نفوذ کے باعث اقوام متحدہ کردار متنازع رہا ہے اور خاص کر مسلم امہ کے خلاف اقوام متحدہ کی حیثیت عضو معطل سے زیادہ نہیں رہی ہے ۔ تاہم رسمی طور پر سہی دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے ادارے خواب غفلت سے بیدار ہوبھی جاتے ہیں تو ویٹو پاور رکھنے والے ممالک اپنے مفادات کے تحت قرارداوں کو ویٹو کردیا کرتے ہیں۔ امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف و اتحادی ملک ہے۔ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ساری دنیا ایک طرف اور امریکا ایک جانب نظر آتا ہے۔امریکا نے یاسر عرفات کو غزہ، خان یوسف، جبالیا، الخلیل، نابلس، رفح ورام اللہ دیئے تھے۔ فلسطین میں موجزن دریا.طبریہ اوربحر المیت(نمک کا دریا ہے) کے علاوہ بقیہ اراضی یعنی26320کلومیٹر مربع خشکی پر مشتمل کل رقبہ کا 22فیصد یاسر عرفات کو دیا گیا تھا۔ جبکہ غاصب اسرائیل کو 78فیصد حوالہ کیا گیا۔ جانب دارانہ تقسیم کے باوجود اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف سفاکانہ رویہ اختیار کیا گیا اور مسلسل مسلم نسل کشی کی جا رہی ہے ۔ اب امریکا نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔
امریکا نے انسانی حقوق کونسل کو معتصب قرار دیا ۔یہ اعلان واشنگٹن میں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا ۔ امریکا نے یہ اقدام اسرائیلی فوج کی جانب سے نہتے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لئے سلامتی کونسل میں کویت کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد کے ردعمل میں کیا ۔گو کہ امریکا نے ایک مرتبہ پھر یہ قرارداد کو ویٹو کردی لیکن اسرائیلی فوج کی جانب سے مسلسل انسانی حقوق سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے امریکا پر عالمی برادری کا دبائو بڑھتا جارہا تھا ۔مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق نکی ہیلی نے الزام عائد کیا کہ کونسل کے ارکان اسرائیل کے خلاف ایک عرصے سے ”تعصب” برتتے آرہے ہیں اور انسانی حقوق غصب کرنے والوں کے محافظ بنے ہوئے ہیںاور بین الاقوامی کونسل ”سیاسی تعصب کا گٹر” بن چکی ہے۔ حالاں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹو نیو گو ٹیرس نے فلسطین میں جارحیت کے خاتمے ، مذاکرات اور بنیادی حقوق کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اسرائیلی مظالم کو بین الاقوامی امن کے خلاف خطرناک سازش قرار دیا ہے۔ جس پر امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے انسانی حقوق کونسل کو ”منافقت کے بے شرم مشق” قرار دے دیا۔ اسرائیل نے امریکی اقدام کا بے شرمی سے خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ” ایک بار پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ ان تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں پر یقین نہیں رکھتے جن کا امریکہ بزعمِ خود پرچم بردار ہے”۔امریکہ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم 12 نمایاں غیر سرکاری تنظیم نے بھی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے نام ایک خط میں امریکی فیصلے پر اظہارِ افسوس کیا ہے۔ واضح رہے کہ2006میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام انسانی حقوق کونسل کا قیا م عمل میں لایا گیا تھا ۔اس کونسل کا صدر دفتر جنیوا میں ہے اور اس کے 47 ارکان کا انتخاب تین سال کی مدت کے لیے کیا جاتا ہے۔امریکہ ڈیڑھ سال قبل کونسل کا رکن منتخب ہوا تھا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ انسانی حقوق کونسل اپنے ایجنڈے کا ساتواں نکتہ ختم کردے جس میں فلسطین اور دیگر مقبوضہ عرب علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر نظر رکھنے کو کونسل کے اہداف میں شامل قرار دیا گیا ہے۔
یہ ٹرمپ پالیسی کا دوہرا معیار ہے جو کھل کر سامنے آیا ہے۔امریکا کی جانب سے اسرائیل کی حمایت میں انسانی حقوق کونسل کی رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ خالصتاََ فلسطین کی مخالفت میں کیا گیا۔امریکا ، اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف مظالم کا سب سے بڑا اتحادی ہونے کے ناطے امریکا نے فلسطین میں اسرائیلی مظالم پر سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی ہر قرار داد کو ویٹو کیا۔انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں اور ان کی اساس کیا ہوتی ہے ،غالباََ امریکی صدر ٹرمپ کو اس کا ذرا بھی ادارک نہیں ہے۔ ٹرمپ پالیسی کے تحت جہاں قابض اسرائیلی افواج کی مدد کی جاتی ہے تو دوسری جانب فلسطینی مسلمانوں کو ان کے مذہبی اور انسانی بنیادی حقوق سے محروم کرکے ہزاروں کی تعداد میں نہتے فلسطینیوں کو شہید کیا جاتا ہے۔ امریکا اپنے مالی مفادات کے خاطر کسی بھی ملک میں جارحیت کرکے ہزاروں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کردیتا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ امریکا عراق میں جھوٹے پروپیگنڈے کی آڑ لیکر عراق کی سرزمین کو تہس نہس اور لاکھوں عراقیوں کی نسل کشی کر تا ہے تو اس کے نزدیک یہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ شام میں نہتے عوام پر بمباریاں کرنا بھی امریکا کے نزدیک انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کہلاتی۔ افغانستان میں گزشتہ17برسوں سے نہتے اور بے قصور افغان عوام کو نیزے کی نوک پر رکھا ہوا ہے ۔ مساجد مدارس ، گھروں، بازاروں، اسکولوں،عام شہریوں ، نہتے معصوم بچوں، بزرگ ، مرد اورخواتین کو بمباریوں کا نشانہ بناتا ہے یہ بھی امریکا کے نزدیک انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے، کشمیر میں بھارت کی شدت پسند اور عالمی دہشت گرد قرار پانے والی ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے نہتے مسلمانوں پر سفاکیت امریکا کے نزدیک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی نہیں ہے۔
حیران کن طور پر امریکا ایران، عراق ، افغانستان ، پاکستان ،چین، شام، وینزویلا اور شمالی کوریامیں امریکی مداخلت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر نہیں کرتا ۔ بلکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے منافقت بھرا اعلامیہ بھی جاری کرتا رہا ہے ۔ امریکی مشن برائے اقوام متحدہ کے دفتر اطلاعات و عوامی سفارتکاری نے 20 اپریل 2018 کو ایک بیان جاری کیا تھاکہ ”آج دفتر خارجہ نے 2017 میں انسانی حقوق کی صورتحال پر عالمی رپورٹس جاری کی ہیں۔ یہ سالانہ رپورٹ 199 ممالک اور خطوں میں انسانی حقوق کا ریکارڈ جانچتی ہے۔ اس سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پامالیوں کی نوعیت، وسعت اور شدت سامنے لانے کا موقع ملتا ہے اور یہ تجزیہ ممکن ہوتا ہے کہ آیا حکومتیں انسانی حقوق کے تحفظ کی کوششیں کر رہی ہیں یا اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ناکام ہیں۔نکی ہیلی نے کہا ہے کہ’انسانی حقوق کا تحفظ اور فروغ امریکی اقدار میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے مرتکب ایران، چین، شام، وینزویلا اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو اس میدان میں چیلنج کرتے رہیں گے۔ اس رپورٹ کا اجرا انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ممالک کو خبردار کرتا ہے کہ امریکہ ان پر نظر رکھے ہوئے ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کے لیے یاددہانی ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے”۔
امریکا انسانی حقوق کو بس اسرائیل کے لئے ہی مختص کرتا ہے ، مسلم کشی کے واقعات پر امریکا کا آنکھیں بند کرلینا عیارانہ فطرت کی عکاسی ہے۔ امریکا قوام متحدہ اور سلامتی کونسل سمیت تمام اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا خواہاں ہے اور اس کو خبط ہے کہ وہ واحد سپر پاور ہونے کی وجہ سے ہر ناجائز فائدہ اٹھا کر کسی کو بھی کسی قسم کا نقصان دینے کا حق رکھتاہے۔ دنیا بھر میں مسلم ممالک میں خانہ جنگیاں کرانے والا انسانی حقوق کی پامالی کی بات کرتا ہے تو حیرانی ہوتی ہے کہ امریکا کس منہ سے ” بین الاقوامی کونسل کو’سیاسی تعصب کا گٹرقرار دے رہا ہے” ۔ کیا امریکا کبھی یہ ثابت کرسکتا ہے کہ اس نے اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کا استعمال کسی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لئے بھی کیا ہو۔ امریکا کے نزدیک اس دنیا میں جینے کا حق صرف یہودیوں کو ہے ۔ اسرائیل امریکا کے نزدیک سیاسی تعصب سے مبرا ہے۔ نکی ہیلی نے شرم و حیا کئے بغیر اسرائیل کو معصوم قرار دیتے ہوئے کہہ دیاکہ کونسل کے ارکان اسرائیل کے خلاف ایک عرصے سے ”تعصب” برتتے آرہے ہیں اور انسانی حقوق غصب کرنے والوں کے محافظ بنے ہوئے ہیں”۔ نکی ہیلی کو فلسطینی بچوں کو گلے دباتے فاشٹ اسرائیلی فوجی نظر نہیں آتے ۔ جو معصوم بچے کے سینے پر بیٹھ کر اس کا گلہ گھونٹ رہا تھا ۔ نکی ہیلی کو یہ بھی نظر نہیں آتا کہ طالب علموں کو سربازار گولی مار جاتی ہے ۔ نکی ہیلی کو صرف اسرائیل سے محبت نظر آتی ہے۔ باقی اس کے نزدیک دنیا کے تمام ممالک اسرائیل سے اس لئے ” تعصب ” برت رہے ہیں کیونکہ امریکا کے سفارت خانے کو یروشلم کی منتقلی کی حمایت نہیں کی گئی تھی ، سلامتی کونسل میں جہاں امریکا کو سبکی کا سامنا ہوا تو اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس میں بھی رکن ممالک نے امریکی اقدام کی شدید مخالفت کی۔ حیرت ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے انسانی حقوق کونسل کو ”منافقت کے بے شرم مشق” قرار دیا ہے۔
امریکا کے نزدیک منافقت کی بے شرم مشق قرار دینا خودمنافقت کی انتہا ہے ۔ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی جھوٹی رپورٹ بنا کر منافقت کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے عراق کو تاراج کر دیا ۔ نہ جانے کیوں امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو عراق پر امریکا کی بے بنیاد چڑھائی کو ” منافقت کی بے شرم مشق ” قرار نہیں دیتے۔ افغانستان میں سویت یونین کے خلاف منافقانہ رویہ اور پھر نائن الیون کے بعد خطے میں ایران ، چین اور روس پرنگرانی کے لئے طویل المدتی مذموم منصوبہ بندی بھی امریکا کے نزدیک منافقت نہیں ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی و مقبوضہ کشمیر میں حریت کی تحریک کو دہشت گردی قرار دینا بھی امریکا کو منافقت نہیں لگتی ۔ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح پھینکنے والے خود کو منافق نہیں قرار دیتے ۔ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا امریکا کے نزدیک ” منافقت کی بے شرم مشق” نہیں ہے۔ مسلم ممالک میں مالی فوائد کے لئے خانہ جنگیاں کراکر عرب ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنا بھی امریکا کے لئے منافقت نہیں ہے۔داعش کی پرورش کرکے عراق ، شام اور افغانستان میں تباہی پھیلانا بھی امریکا کو ” منافقت کی بے شرم مشق” نہیں لگتی۔ دراصل یہی امریکا کا بدترین منافقت بھرا کراہت زدہ چہرہ ہے۔امریکا دراصل خود منافقت کی بے شرم مشق اور تعصب کا استعارہ ہے۔
امریکا انسانی حقوق کی بات کرتے ہوئے خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ گزشتہ دنوںٹرمپ انتظامیہ و پالیسی کی بدترین اقدامات میں پناہ گزینوں سے اُن کے معصوم بچوں کو الگ کرکے حراستی مراکز میں رکھنا شاید امریکا کے نزدیک انسانی حقوق کی” عظیم مثال” ہے۔ امریکا نے نئے قانون کے تحت پناہ گزینوں کے بچوں کو والدین سے الگ کرکے حراستی مراکز میں جانوروں کی طرح لوہے کے پنجروں میں قید کردیا ہے۔معصوم بچوں کی بلکتی اور انسانیت سوز تصاویر آنے اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے زبردست احتجاج کے باوجود صدر ٹرمپ نے میکسکو کے راستے آنے والے پناہ گزین تارکین وطن کو گرفتار کرنا شروع کردیا اور بچوں کو والدین سے الگ کرنے کی بدترین مثال قائم کی۔امریکا حکام نے صرف چند ہفتوں میں ہزاروں بچوں کو اپنے والدین سے الگ کردیا۔
عالمی ابلاغ نے ٹرمپ پالیسی کے نتیجے میں والدین کو بچوں سے الگ کئے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ اس کا اندازہ عالمی ذرائع ابلاغ و سماجی رابطوں کی ویب سائٹس میں پوسٹ کئے جانے والی تنقید سے کیا جاسکتا ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کے مطابق” ریچل میڈو نے ایم ایس این بی سی کے ایک اور رپورٹر جیکب سوبوروف کے چند گھنٹے پہلے کے ایک پیغام کو ری ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے امریکی محکمہ صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘چلڈرن ایلین پروگرام’ میں گیارہ ہزار سات سو چھیاسی بچے ہیں جن میں تین ہزار دو سو اسی لڑکیاں ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ انہیں ان بچیوں یا چھوٹے بچوں تک رسائی نہیں دی گئی”۔جیکب نے نشریاتی ادارے ‘دی ٹیکساس آبزرور’ کی ایک خبر بھی ری ٹویٹ کی جس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ ‘ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم یہاں پہنچے کیسے؟ کیسے سنہ دو ہزار اٹھارہ میں امریکی قیادت اور امریکی شہریوں کی قابل ذکر تعداد کو یہ خیال ٹھیک لگا کہ پناہ گزینوں کو قید کر کے ان کے بچوں کو ان سے الگ کر کے فوجی اڈوں پر بنے مراکز میں بھیج دینا چاہیے’۔
ٹیکساس سے بیٹی او رورک نے بظاہر والدین سے الگ کیے گئے ایک ایسے ہی بچے کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ وہ اپنے سات سالہ بچے کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی عمر کے بچوں کو ‘حراستی مراکز’ میں کیوں رکھا جا رہا۔ ‘وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ ان کا کیا قصور ہے؟’انہی خبروں کے ساتھ ٹوئٹر پر سٹیو سمتھ کے نام سے ایک اور ٹرینڈ نمودار ہوا۔ سٹیو سمتھ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے تھے اور اب صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے انہوں نے اس پارٹی کو چھوڑ دیا ہے۔سٹیو سمتھ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ وہ ریپبلکن پارٹی سے اپنی 29 سالہ پرانی رفاقت ختم کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بچوں کو والدین سے الگ کرنے کی پالیسی کے خلاف 30 جون امریکہ بھر میں احتجاج کے پیغامات بھی بار بار ٹویٹ کیے جا رہے ہیں۔
کیا یہ امریکا کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی نہیں ہے جو صدر ٹرمپ نے اپنی معتصب پالیسی کے تحت روا رکھی ہوئی ہے۔صدر ٹرمپ کے ڈیڑھ سالہ دورِ اقتدار کے دوران یہ تیسرا موقع ہے کہ امریکہ کسی عالمی ادارے یا معاہدے سے الگ ہوا ہے۔اس سے قبل ٹرمپ انتظامیہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے طے پانے والے پیرس معاہدے اور ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے سے الگ ہوچکی ہے۔ٹرمپ حکومت اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) کی جانب سے فلسطین کو رکنیت دینے پر اسے اسرائیل مخالف قرار دیتے ہوئے رواں سال کے اختتام تک یونیسکو سے بھی الگ ہونے کا ارادہ ظاہر کرچکی ہے۔ہیوسٹن (سنہوا) یونیورسٹی آف ہیوسٹن ڈاؤن ٹائون کے چینی ایسوسی ایٹ پروفیسر پیٹر جے لی نے کہا ہے کہ امریکہ کو اپنے انسانی حقوق کے ایشوز پر پردہ نہیں ڈالنا چاہئے۔ امریکہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا امریکہ میں مذہبی آزادی پر حملے ہوتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بدترین ہیں۔ ٹرمپ کی طرف سے بعض مسلمان ممالک پر سفری پابندیوں سے امریکی اقدار کا مذاق اڑایا گیا۔ امریکہ ”تقسیم ملک” ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری کی گئی ہے لیکن امریکہ میں ایسی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ دوسرے ممالک کیلئے لالچ اور دھمکی نہیں ہو سکتی بلکہ یہ امریکہ کیلئے خود ایک وارننگ ہے۔
اسرائیل کو لگام دینے کی مسلم اکثریتی ممالک کی کوششیں مفادات کے ٹکرائو کی وجہ سے ہمیشہ ناکام ہوتی رہی ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان عدم اتفاق کی وجہ سے اسرائیل کے مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب امریکا نے اقوام متحدہ کو مکمل طور پر بلیک میل کرنے کے لئے انسانی حقوق کونسل سے نکلنے کا اعلان کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک بد مست ہاتھی بن کر دنیا کے امن کو تباہ کرنے میں تلا ہوا ہے اور امریکا کا دوہرا معیار اور ٹرمپ کی جارحانہ پالیسوں کی وجہ سے زمین ہی نہیں بلکہ خلا میں بھی ایک نئی جنگ کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ امریکی امداد کی وجہ سے امریکا و اسرائیل کے خلاف کوئی عملی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر امریکا پر پابندیاں عائد کیں جاتی لیکن الٹا امریکا اقوام متحدہ کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ رہا ہے۔یہ اقوام متحدہ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا اقوام متحدہ ہمیشہ امریکی خواہشات پر چلتی رہے گی اور امریکاو اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کوئی اقدام نہیں اٹھا سکے گی۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک ، بالخصوص مسلم ممالک کو سنجیدگی کے ساتھ امریکی غلامی سے باہر نکلنا ہوگا ۔ امریکااپنے ذاتی مفاد کے لئے مسلم امہ کو تقسیم در تقسیم کررہا ہے ۔ اقوام متحدہ روہنگیا، کشمیر، فلسطین، شام،عراق ، یمن،افغانستان اور بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر امریکا کے خلاف کسی قسم کا سخت قدم اٹھانے سے گریز کرتی ہے۔ امریکا اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کو بھاری فنڈ دے کر امریکی انتظامیہ کا من پسند ادارہ بنا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کو امریکا سے ڈکٹیشن لینے کی عادت پر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کا کوئی ادارہ بھی امریکی تسلط سے آزاد نہیں ہے۔ اب انسانی حقوق کونسل کو تعصب کا گٹر، منافقت کی شرمناک مشق جیسے القابات دے کر عالمی برادری کا مذاق اڑا رہا ہے۔
امریکا کی غلامی سے آزاد ہوئے بغیر اقوام متحدہ کے رکن ممالک آزادنہ فیصلے نہیں کرسکتے ، جب تک اقوام متحدہ امریکا کے آگے سرنگوں رہے گا اور امریکی ڈکٹیشن پر دہشت گردی کی لیبل اپنے مخالفین پر لگاتا اور اسرائیل کو مظلوم ثابت کرتا رہے گا ۔ دنیامیں پائدار امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔مسلم اکثریتی ممالک کو حتمی فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں مسلم امہ کی بقاعزیز ہے یا پھر فروعی اختلافات۔ ہنود ، یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے۔ آج فلسطین پر ڈھائی جانے والی قیامت اور ہزاروں شہیدوں اور لاکھوں زخمی مسلمانوں کے لئے مسلم ممالک یکجا نہ ہوئے تو قدرت کے قانون مکافات عمل سے کوئی بھی مسلم اکثریتی ملک شکار ہوسکتا ہے۔ امریکا کو فلسطین سے لیکر افغانستان تک انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جواب دینا مسلم امہ کا فرض بنتا ہے ۔ سب کو اللہ کی مضبوط رسی کو تھام کر ایک ہوکر امریکا کو جرات مندانہ جواب دینا چاہیے۔