اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل عسکری قیادت اور انٹیلی جنس کے 3000 کے قریب ذمے داران نے امریکی صدر جو بائیڈن اور کانگریس میں ڈٰیموکریٹس ارکان کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے ساتھ نیا جوہری معاہدہ اسرائیل کے امن کے لیے ایک “بڑا خطرہ” ہو گا۔
اسرائیلی دفاع اور امن فورم(IDSF) میں شریک ان افراد نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا ایک سمجھوتے پر دستخط کرے گا جو ایران کو نقد مالی اثاثے فراہم کرے گا۔ یہ رقم ایران کو جوہری ہتھیار کے حصول کی راہ پر ڈال دی گی جو اسرائیل کو تباہ کرنے کے واسطے کام آئے گا۔ یہ موقف امریکی سینیٹ میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر بوب میننڈیز اور بائیڈن انتظامیہ کے سینئر عہدے داران کو بھیجے گئے ایک خط میں سامنے آیا ہے۔
اس خط کی ایک کاپی امریکی اخبار واشنگٹن فری بیکن کو بھی موصول ہوئی ہے۔ خط میں اسرائیلی چیدہ شخصیات نے کہا ہے کہ اس (جوہری) سمجھوتے کی طرف واپس لوٹنا ایک بڑی غلطی ہو گی۔
یہ خط ایسے وقت بھیجا گیا ہے جب بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو یقینی بنانے کے واسطے سفارتی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس معاہدے کا مقصد ایران پر سے پابندیاں اٹھانا اور اربوں ڈالر کے مالی اثاثے فراہم کرنا ہے۔
اسرائیلی ذمے داران نے واضح کیا ہے کہ نئے سمجھوتے میں ایک ایسا طریقہ کار شامل ہونا چاہیے جو زیادہ جامع نگرانی کو یقینی بنائے۔ اسی طرح ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی ترقی پر پابندی اور اقوام متحدہ کی تہران پر پابندیاں دوبارہ سے عائد کی جانی چاہئیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس محفوظ طریقہ کار کا سہارا لیا تھا اور اسے جوہری معاہدے کے اصل متن میں تحریر کیا گیا تھا۔ تاہم بائیڈن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی ان کی انتظامیہ نے فیصلے کو پلٹ دیا۔
اسرئیلی ذمے داران کے مطابق کسی بھی نئے سمجھوتے میں ایران پر طویل عرصے سے عائد ہتھیاروں کی پابندی کی تجدید ہونی چاہیے۔ یہ پابندی اکتوبر 2020ء میں ختم ہو چکی ہے اور اس کی تجدید نہیں ہوئی۔ پابندی کے خاتمے کے نتیجے میں ایران کو روس اور چین جیسے ملکوں سے جدید عسکری ساز و سامان خریدنے کی اجازت مل گئی۔
اسرائیلی ذمے داران نے زور دیا ہے کہ کسی بھی نئے سمجھوتے کے تحت دہشت گرد تنظیم ایرانی پاسداران انقلاب پر پابندیاں باقی رہنا چاہئیں۔