عالمی معاشی صورتحال کے پیش نظر یہ خبر عام ہو رہی ہے کہ 2015ء تک اسرائیل سے تیار ہونے والی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگا۔ جس کی ابتدا کسی اسلامی ملک سے ہوگی کیونکہ عالمی معاشی بائیکاٹ سے اسرائیل کو 08 ارب ڈالر کا نقصان ہواہے۔ جس کی تمام تر ذمہ داری مسلم ممالک (پاکستان، ایران،عراق، سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک سرفہرست ہیں) پر ڈالی جا رہی ہے۔
گزشتہ روز فلسطینی میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آنے والی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی معاشی بائیکاٹ، اسرائیل کو 08 ارب ڈالر کا نقصان ہواہے۔ صہیونی ریاست کے عالمی معاشی بائیکاٹ کے گہرے اور منفی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران صہیونی مصنوعات کے عالمگیر بائیکاٹ کے نتیجے میں آٹھ ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ معاشی خسارے کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست میں قائم کارخانوں کے 10 ہزارملازم فارغ کر دیے گئے ہیں۔
یورپی یونین کے ممبر ممالک اسرائیل کی 32 فی صد مصنوعات کے خریدار سمجھے جاتے ہیں۔ رواں سال کے آغاز میں یورپی ملکوں کی جانب سے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں تیار کی جانے والی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ بائیکاٹ کا دائرہ تجارتی شعبے سے آگے بڑھ کر تعلیم اور سرمایہ کاری کے شعبے تک جا پہنچا ہے۔ یورپی یونین کی مارکیٹوں میں پہنچنے والی اسرائیلی کی ان مصنوعات پر”بائیکاٹ” کا ٹیگ لگادیا جاتاہے جو مقبوضہ مغربی کنارے یا بیت المقدس کی کالونیوں کے کارخانوں میں تیار کی جاتی ہیں۔
مغربی کنارے میں یورپی یونین کے سابق سفیر جون جاٹ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اب مقبوضہ علاقوں کے اسرائیلی کارخانوں کی مصنوعات کو کسی قیمت پرقبول نہیں کرے گا۔
رواں ہفتے یورپی یونین سے تعلق رکھنے والی تین بڑی فرموں نے اسرائیل میں سرمایہ کاری سے انکار کرتے ہوئے جاری منصوبوں پر کام روک دیا تھا۔ یورپ کی یہ تینوں کمپنیاں حیفا اور اشدود شہروں کے درمیان بندرگاہوں کی تعمیر کے منصوبوں پر کام کر رہی تھیں۔ گذشتہ ہفتے جرمنی کے”ڈوچہ بنک” نے بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ خیال رہے کہ ڈوچہ بنک دنیا کے تین بڑے بنکوں میں شمار ہوتا ہے۔
European Countries
صہیونی دانشور برہوم گرائیسی کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے باضابطہ طور پر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اب تک جن فرموں اور اداروں کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلانات سامنے آئے ہیں تو وہ انفرادی نوعیت کے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل کو غیرمعمولی اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کو پہلے بھی اندازہ تھا کہ عالمی اقتصادی بائیکاٹ کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو آٹھ ارب ڈالر سالانہ خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بائیکاٹ کے منفی اثرات کے نتیجے کم سے کم دس ہزار ملازمین نوکریوں سے فارغ ہو سکتے ہیں۔ صہیونی دانشور مسٹر برھوم کا کہنا ہے کہ تل ابیب حکومت یورپی یونین کی جانب سے بائیکاٹ پر واویلا مچا رہی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے بائیکاٹ کرنے والے ممالک کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ ایسے اقدامات کے نتیجے میں دو طرفہ تزویراتی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے لیکن اسرائیل کی اس تمام چیخ پکار کے باوجود یورپی برادری پرکوئی اثرنہیں پڑ رہا ہے۔
اسرائیل کے ایکسپورٹ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے حال ہی میں جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی اقتصادی بائیکاٹ کے نتیجے میں مجموعی طور پر قومی پیداوار میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ یورپی یونین اسرائیلی مصنوعات کی مجموعی پیداوار کے 32 فی صد کی کھپت کا ذریعہ بن رہی ہے۔ یورپی ممالک کی مارکیٹوں میں اسرائیلی مصنوعات پر پابندی کے بعد اسرائیل متبادل مارکیٹ کی تلاش میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔
فلسطین اسرائیل اسٹڈی سینٹر ”مدار” کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر انطوان شلحت کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے بعد صہیونی ریاست سخت پریشانی سے دوچار ہے کیونکہ اسرائیل کی مقامی پیداواری صلاحیت ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے گذشتہ برس عوامی قومی قرضوں کا حجم 68 فی صد سے کم کر کے 60 فی صد تک لانے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن عالمی اقتصادی بائیکاٹ کے نتیجے میں اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اگر بائیکاٹ جاری رہا تو اسرائیل کے قومی قرضوں کے حجم میں 2015ء تک 11.5 فی صد مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف اب 2015ء میں مسلم ممالک کو قرض دینے سے قبل شرائط میں مزید سختی کریگا جس سے روپے کی قدر میںکمی ہو گی اور آئی ایم ایف سے قرض لینے والے ممالک مقامی سطح پر ڈالرز میں خرید و فروخت کرنے پابند ہوں گے۔ جس سے غربت میں مزید اضافہ ہو گا۔