ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ اسرائیلی صدر اسحاق ہرتصوغ کا دورہ انقرہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا اہم سنگ میل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ دفاع اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کا خواہش مند ہے۔ ان خیالات کا اظہار ایردوآن نے بدھ کے روز مہمان اسرائیلی صدر کے ہمراہ انقرہ میں مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔
اسحاق ہرتصوغ چودہ برس بعد ترکی کا دورہ کرنے والے پہلے صدر ہیں۔ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرتصوغ اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوان کی دعوت پر ترکی کا دورہ کر رہے ہیں۔ یہ 2007 کے بعد اسرائیل کے کسی سربراہِ مملکت کا پہلا دورۂ ترکی ہے جسے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی بحالی میں پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ایردوآن نے مزید کہا کہ ’’ہم مشترکہ مفادات اور باہمی حساس معاملات کا احترام کرتے ہوئےدونوں ملکوں [اسرائیل اور ترکی] کے درمیان سیاسی ڈائیلاگ کا آغاز کریں گے۔‘‘ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اپنے خطے میں امن وسکون کی ثقافت کو راسخ کرنا اب ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں بڑھوتری اور مضبوطی نہایت اہم ہے۔ ہمیں باہمی تعاون کے امکانات کا مکمل ادراک ہے۔
صدر اسحاق ہرتصوغ ایک ایسے وقت میں استنبول اور انقرہ کا دورہ کر رہے ہیں جب گزشتہ ماہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد اسرائیل اور ترکی دونوں ہی اس جنگ میں مصالحت کی کوششیں کر رہے ہیں۔
خبر رساں اداراے ’اے ایف پی‘ کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں یوکرین کی صورتِ حال زیر بحث آنے کی توقع ہے۔ البتہ غالب امکان ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہنے والے دوطرفہ تعلقات اس دورے کا محور رہیں گے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اس وقت سرد مہری آ گئی تھی جب 2010 میں غزہ کی پٹی پر عائد پابندیوں اور محاصرے کے خلاف ترکی نے اپنے ماوی مرمرہ بحری جہاز روانہ کیا تھا۔ یہ جہاز امدادی سامان اور امدادی کارکن لے جانے والے اس بحری جہازوں کے بیڑ ے کی قیادت کر رہا تھا جسے’فریڈم فلوٹیلا‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اسرائیلی کمانڈوز نے اس امدادی بیڑے کے خلاف کارروائی کی تھی جس میں 10 ترک کارکن جاں بحق ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کم ترین سطح پر چلے گئے تھے۔ لیکن 2011 میں اقوامِ متحدہ نے ترکی کے امدادی بیڑے پر اسرائیل کی کارروائی سے متعلق رپورٹ جاری کی تو ترکی نے اسرائیل کو سفیر کو ملک سے نکال دیا۔
بعد میں 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو ترکی نے اس فیصلے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
گزشتہ برس نومبر میں ترکی نے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیے گئے ایک اسرائیلی جوڑے کو رہا کر دیا۔ اس جوڑے کو استنبول میں صدر ایردوان کی رہائش گاہ کے قریب فوٹو گرافی کرتے ہوئے الزام کیا گیا تھا۔ ان پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کی اسرائیل نے تردید کی تھی۔
اس جوڑے کی رہائی کے بعد اسرائیل کے وزیرِ اعظم نفتالی بینیٹ نے صدر ایردوان سے فون پر بات بھی کی تھی جو 2013 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا پہلا ایسا رابطہ تھا۔
اس کے بعد رواں برس فروری میں صدر ایردوان کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ترکی اور اسرائیل کی قدرتی گیس کو یورپ تک پہنچانے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایردوان نے عندیہ دیا تھا کہ مارچ میں دونوں ممالک سربراہان مملکت کی ملاقات کے موقعے پر توانائی کے شعبے میں تعاون پر بات کریں گے۔
اپنے دورے سے قبل کی گئی گفتگو میں اسرائیلی صدر کا کہنا تھا کہ ’حالیہ برسوں میں بہت سے اتار چڑھاؤ کے بعد ہم ہر بات پر متفق نہیں ہو سکتے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان یکساں احترام کی بنیاد پر انہیں نئے سرے سے استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
اسرائیلی صدر کے انقرہ پہنچنے پر استبنول میں احتجاج کیا گیا تو اس میں شریک افراد نے اسرائیل مخالف نعرے لگاتے ہوئے اسرائیلی صدر کو ’قاتل‘ کہہ کر پکارا۔ اس احتجاج میں غزہ کے لیے امدادی فلوٹیلا کا اہتمام کرنے والے ترک امدادی ادارے انسانی حقوق حریت[آئی ایچ ایچ] کے رضاکار بھی شامل تھے۔
گذشتہ ہفتے قبرص کا دورہ کرنے والے اسرائیلی صدر نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ترکی سے تعلقات کی بہتری قبرص کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہو گی۔اسی طرح کے ریمارکس انہوں نے اس وقت بھی دیے تھے جب وہ گزشتہ ماہ یونان کے دورے پر تھے۔ اسرائیل کے قبرص اور یونان کے ساتھ تعلقات میں اس وقت گرمجوشی پیدا ہوئی جب مشرقی بحیرہ روم میں قدرتی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
اسرائیل اور ترکی کا حالیہ رابطہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب انقرہ اپنی بین الاقوامی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے مشرق وسطی کے متعدد ملکوں سے تعلقات بہتر کر رہا ہے۔ اسرائیل سے بڑھتے ہوئے روابط کو صدر ایردوان کی سخت گیر پالیسی میں نرمی سے تعبیر کیا جا رہا ہے تاہم گزشتہ ماہ ترکی کے وزیرِ خارجہ میلود چاوش اولو نے اسرائیلی صدر کے دورے سے قبل یہ بیان دیا تھا کہ اسرائیل سے قریبی تعلقات کی وجہ سے ترکی فلسطینی ریاست کے لیے اپنی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔