اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک انوکھا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر میں سو سے زائد سفارت خانوں اور سفارتی مشنوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک انوکھا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر میں سو سے زائد سفارت خانوں اور سفارتی مشنوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟
دنیا کے درجنوں ممالک میں سو سے زائد اسرائیلی سفارت خانوں اور سفارتی مشنوں کا عملہ غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کیے ہوئے ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس ہڑتال کا اعلان تیس ستمبر بروز بدھ کیا تھا۔
یہ ہڑتال دراصل اسرائیل کی وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کے مابین تنازعے کا نتیجہ ہے۔ وزارت خارجہ نے ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ”اسرائیلی وزارت خزانہ کی طرف سے وزارت خارجہ کے اہلکاروں کے مابین طویل مدت سے طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کر کے ہمیں آج تیس اکتوبر کے روز سے دنیا بھر میں اسرائیلی سفارتی مشن بند کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ قونصلر خدمات پیش نہیں کی جائیں گی اور سفارتی مشنوں کی حدود میں داخلے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔‘‘
اس اعلان کے بعد امریکا اور جرمنی سمیت دنیا بھر میں اسرائیلی سفارت خانوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا اور کئی عمارتوں کے باہر ‘ہڑتال‘ کے نوٹس کے آویزاں کر دیے گئے۔
واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے ترجمان ایلاد اشٹرومائیر نے لکھا، ”ہم ہڑتال پر ہیں! ۔۔۔ اسرائیلی سفارت کار ہمہ وقت اسرائیل کی طاقت بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے وزارت خزانہ کے فیصلے نے ہمیں مذکورہ اقدام پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘ جرمنی میں اسرائیلی سفارت خانے نے بھی کم و بیش انہی الفاظ میں سفارت خانے کی بندش اور ہڑتال کی وضاحت کرتے ہوئے ‘وزارت خزانہ کے یک طرفہ فیصلے‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ تنازعہ دراصل دنیا بھر میں تعینات اسرائیلی سفارتی عملے کے ٹیکس کے استثنٰی سے متعلق ہے۔ اسرائیلی سفارتی اہلکاروں کو کئی دہائیوں سے ٹیکس سے استثنٰی حاصل ہے تاہم وزارت خزانہ اس میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔
اس تنازعے کے بعد اسرائیلی وزارت خزانہ اور سفارتی عملے کی یونین کے مابین رواں برس جولائی میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں استثنٰی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ تاہم وزارت خزانہ نے اکتوبر کے اواخر میں اپنا فیصلہ یک طرفہ طور پر تبدیل کر دیا۔
اسرائیلی وزارت خزانہ نے دفتر خارجہ کے اہلکاروں پر ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا، ”وزارت خارجہ کے اہلکاروں کو بھی عام اسرائیلی شہریوں کی طرح ٹیکس ادا کرنا چاہیے ۔۔۔ ہمیں افسوس ہے کہ اپنی ذاتی حیثیت بہتر بنانے کی کوشش میں وزارت خارجہ کے ملازموں نے ٹیکس ادا نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ غیر ممالک میں تعینات اسرائیلی اہلکار قانون سے بالاتر نہیں ہیں۔‘‘