مقبوضہ بیت المقدس (جیوڈیسک) فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے تل ابیب میں امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا تو اسرائیل کو تسلیم کیا جانے والا فلسطینی فیصلہ واپس لینے پر غور کیا جا سکتا ہے۔
محمود عباس کا کہنا تھا کہ “میں نے منتخب امریکی صدر کو خط تحریر کیا ہے جس میں انہیں ایسا نہ کرنے کا کہا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف امریکا ،فلسطین تنازع کے حل میں مدد فراہم کرنے قانونی جواز کھو دے گا بلکہ دوسری جانب اس سےدو ریاستی حل کا فارمولا بھی تباہ ہو جائے گا۔
امریکی صدارت کا چند گھنٹوں بعد منصب سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا صدر مقام تسلیم کرتے ہوئے واشنگٹن کے سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ فلسطینی اس اقدام کے سخت مخالف ہیں اور اسے ایک تباہ کن یک طرفہ کارروائی سمجھتے ہیں کیونکہ مقبوضہ بیت المقدس شہر کی حیثیت متنازع ہے۔
امریکا سمیت اقوام متحدہ کے متعدد رکن ملک بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلخلافہ نہیں مانتے۔ فلسطین اور اسرائیل تنازع میں بیت المقدس کا معاملہ کئی دہائیوں سے متنازع چلا آ رہا ہے۔
اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ منصوبے کی حمایت کرتاہے ۔ ماضی میں بھی تل ابیب سابقہ امریکی صدور کو ایسا اقدام اٹھانے پر آمادہ کرتا رہا ہے تاہم اس کا عملی طور پر کچھ فائدہ نہیں ہو سکا۔
صدر عباس نے کہا کہ “سفارتخانہ منتقلی کی صورت میں ہمارے پاس کئی آپشنز ہیں جن پر ہم عرب ملکوں کے ساتھ تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔” اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فلسطینی صدر نے مزید کہا کہ “اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لینا ان آپشنز میں سے ایک ہو سکتا ہے لیکن ہم پر امید ہیں کہ وہ مرحلہ نہیں آئے گا بلکہ ہم نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ اس معاملے پر کچھ نہ کچھ طے کر لیں گے۔”
انیس سو ترانوے میں طے پانے والے اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل اور تنظیم آزادی فلسطین [پی ایل او] ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہیں تاہم اس عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والا دیرپا امن کا خواب تا حال شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔
اتوار کے روز ستر سے زائد ملک پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کریں گے جہاں وہ “دو ریاستی حل” کے فارمولے کی حمایت کا اعادہ کریں گے۔اس فارمولے پر عمل کی صورت میں فلسطینی اور اسرائیل ریاست ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو امن اور سلامتی سے رہ سکیں گے۔
فلسطینی صدر نے خبردار کیا “کہ پیرس میں ہونے والا اجلاس “دو ریاستی فارمولہ پر عمل درآمد کا آخری موقع ہو سکتا ہے۔”