غزہ (جیوڈیسک) اسرائیل نے غزہ پر ایک بار پھر حملہ کیا ہے جس میں 10 مزید فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ اس سے قبل اسرائیل نے رفاح کے علاوہ غزہ میں پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر بارہ بجے سے سات گھنٹے کےلیے حملے روکنے کااعلان کیا تھا۔
حماس نے اسے فلسطینیوں کے قتل عام سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا۔ 28 روز سے جاری خوں ریزی میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 1800 سو سے زیادہ ہو گئی جبکہ 9 ہزار افراد زخمی ہیں۔
نا کہیں جہاں میں امان ملی جو امان ملی تو کہاں ملی۔رفاح میں واقع اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکول میں 3 ہزار فلسطینی خود کو محفوظ جان کر وہاں پناہ لیے ہوئے تھے کہ اچانک اسرائیلی فضائیہ نے اس پناہ گزین کیمپ پر بمباری کردی۔
حملے کے نتیجے میں بیس دن کے ایک بچے سمیت 10 فلسطینی شہید اور تیس سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ ان پر پناہ گزیں کیمپ کے قریب سے مارٹر گولے فائر کیے گئے جس کے جواب میں کارروائی کی گئی۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اسکول پر حملے کو ’اخلاقی زیادتی اور مجرمانہ فعل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ’بین الاقوامی قوانین کی فاش خلاف ورزی ہے‘ اور ذمے داران کا احتساب ہونا چاہیے۔ حماس کے ترجمان سمیع ابو زہری نے کہا ہے۔
کہ پناہ گزین کیمپ پر حملے میں اسرائیل کے ساتھ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل بان کی مون بھی ذمے دار ہیں کیوں کہ وہ اسرائیلی فوجی کی تلاش کے لیےروتے رہے اور حملوں پر خاموش رہے۔
امریکا نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ عام شہریوں کے جانی نقصان کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ ترجمان محکمہ خارجہ نے اسکول پر حملے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ایک ہفتے کے دوران اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ پر یہ دوسرا اسرائیلی حملہ ہے۔
اس سے قبل اتوار کو غزہ میں مختلف حملوں میں تیس فلسطینی شہید ہوئے۔ادھر اسرائیلی فوجی ترجمان لیفٹننٹ کرنل پیٹر لیرنیرنےغزہ سے فوج کے انخلاء کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی سے کچھ اسرائیلی فوجی نکالے ہیں اور ان کی جگہ نئے تازہ دم دستے تعینات کیے ہیں۔
برطانیہ کے خارجہ سیکرٹری فلپ ہیمنڈ نے فلسطینیوں کی ہلاکت کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے صورتحال کو حل کرنے کے لیے غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق غزہ میں حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ مقامی افراد زخمیوں کو طبی امداد نہیں دے پا رہے جبکہ جاں بحق فلسطینیوں کے جسموں کو کھانے پینےکی اشیاء رکھنے والے ریفریجریٹرز میں رکھنا پڑ رہا ہے۔