نیو یارک (اصل میڈیا ڈیسک) انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک تازہ لیکن بہت مفصل رپورٹ میں اسرائیل پر الزامات لگائے ہیں کہ وہ اپنی پالسییوں کے ذریعے فلسطینیوں کے ساتھ نسلی امتیاز اور ان کے ہدف بنا کر تعاقب کا مرتکب ہو رہا ہے۔
نیو یارک میں قائم اور انسانی حقوق کے لیے بین الاقوامی سطح پر سرگرم اس تنظیم نے آج منگل ستائیس اپریل کو دو سو تیرہ صفحات پر مشتمل اپنی ایک جامع رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کے اندر اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ جن رویوں کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی کئی دیگر تنظیموں اور مبصرین کی طرح اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ اگر اسرائیل میں عرب نسل کے اقلیتی شہریوں اور غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے مقامی باشندوں کی مجموعی آبادی کو دیکھا جائے، تو یہ تعداد اسرائیل کی آبادی کا تقریباﹰ نصف بنتی ہے۔
مگر اسرائیلی ریاست اپنی پالیسیوں کے ساتھ نا صرف اپنے عرب اقلیتی شہریوں بلکہ غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو بھی منظم انداز میں ان بنیادی حقوق سے محروم کرتی جا رہی ہے، جو یہودی شہریوں کو حاصل ہیں۔
ایچ آر ڈبلیو نے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آنے والی جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، ان کی حیثیت انسانیت کے خلاف جرائم کی ہے۔
ساتھ ہی اس تنظیم نے کہا ہے کہ اس کی اس رپورٹ کا مقصد اسرائیل اور نسلی امتیاز کے دور کی جنوبی افریقی ریاست کا موازنہ نہیں بلکہ وہ یہ تعین کرنا چاہتی ہے کہ آیا مخصوص نوعیت کی اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کو موجودہ بین الاقوامی قانون کے تحت نسلی امتیاز کا ارتکاب قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی وزرات خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ کی یہ رپورٹ ‘غلط بھی ہے اور لغو بھی‘ اور یہ کہ یہ تنظیم طویل عرصے سے اسرائیل مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ ساتھ ہی اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ پر اپنے ردعمل میں یہ بھی کہا کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم یہ گروپ کئی برسوں تک بار بار اسرائیل کا بائیکاٹ کروانے کے لیے کام کرتا رہا ہے۔
اسٹریٹیجک امور کے اسرائیلی وزیر مائیکل بائٹن نے کہا، ”اس رپورٹ کا کسی بھی طور کوئی تعلق انسانی حقوق سے تو ہے ہی نہیں۔ بلکہ یہ ہیومن رائٹس واچ کی ان مسلسل کوششوں کا حصہ ہے، جو وہ اسرائیلی ریاست کے بقا کے حق اور اس کے یہودی شہریوں کو نیچا دکھانے کے لیے کر رہی ہے۔‘‘
ان اسرائیلی دعووں کے برعکس فلسطینی صدر محمود عباس نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس تناظر میں صدر محمود عباس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”اس وقت بین الاقوامی برادری کی طرف سے مداخلت کی اشد ضرورت ہے، اس لیے کہ تمام ممالک، ان کے ادارے اور تنظیمیں اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ کسی بھی طرح اور کسی بھی شکل میں ان جنگی جرائم میں نا تو مدد کریں اور نا ہی ان کا حصہ بنیں، جن کا ارتکاب انسانیت اور فلسطین کے خلاف کیا جا رہا ہے۔‘‘
ایچ آر ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا رکھی ہیں، اور جس طرح 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران قبضہ کردہ علاقوں پر فلسطینیوں کی ملکیتی زمینوں کو یہودیوں کی آباد کاری کے لیے ضبط کیا جا رہا ہے، وہ ایسی ریاستی پالیسیوں کی مثالیں ہیں، جو دراصل نسلی امتیاز اور ہدف بنا کر تعاقب کرنے کے جرائم ہیں۔
اسی رپورٹ کے مطابق، ”پورے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں، اسرائیلی حکام نے یہ دانستہ کوششیں کی ہیں کہ ان کا فلسطینیوں پر غلبہ قائم رہے۔ اس کے لیے وہ زمین پر قبضے اور آبادی کی ہیئت اور تناسب میں رد و بدل کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہوئے یہودی شہریوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے، ”ان اور دیگر مثالوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اسرائیلی حکام انسانیت کے خلاف نسلی امتیاز اور تعاقب کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے ایچ آر ڈبلیو نے ان جرائم کی وہ تعریفیں اور وضاحتیں استعال کیں، جو 1976ء کے نسلی امتیاز کے خلاف بین الاقوامی کنوینشن اور 1998ء میں منظور کردہ قانونِ روم میں کی گئی ہیں۔
نیدرلینڈز میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی پراسیکیوٹر کی طرف سے ابھی گزشتہ ماہ ہی کہا گہا تھا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کے ارتکاب کی باقاعدہ تفتیش کریں گی۔
ایسا کیا جانا اس عدالت کے ججوں کے اس فیصلے کے بعد ممکن ہو گیا تھا کہ فلسطینی علاقے اس عدالت کی قانونی عمل داری میں آتے ہیں۔
دی ہیگ میں انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کے اس فیصلے کا فلسطینی خود مختار انتظامیہ نے خیر مقدم کیا تھا مگر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے ایک ‘سامیت دشمن‘ فیصلہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ ساتھ ہی نیتن یاہو نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیل اس عدالت کے اختیارات اور اس کی عمل داری کو تسلیم نہیں کرتا۔