ماسکو (اصل میڈیا ڈیسک) روس نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے اپنے منصوبے کے مطابق غربِ اردن کے بعض حصوں کو ضم کیا تو اس سے ایک آزاد اور قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔
روسی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ماریہ زخروفا نے ماسکو میں ایک نیوزکانفرنس میں اس تشویش کا اظہار کیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے فروری میں کہا تھا کہ ان کی حکومت نے دریائے اردن کے مغربی کنارے میں واقع ان علاقوں کے نقشوں کی تیاری شروع کردی ہے جنھیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مجوزہ ’’ صدی کی ڈیل‘‘ کے مطابق صہیونی ریاست میں ضم کیا جائے گا۔
اس ڈیل پر اگر عمل درآمد ہوتا ہے تو اسرائیل کو دوسری چیزوں کے علاوہ وادیِ اردن پر مکمل خود مختاری حاصل ہوجائے گی جبکہ اس وقت عملاً اسرائیل کا اس علاقے پر قبضہ اور فوجداری کنٹرول ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ ضم کیے جانے والے علاقوں میں یہودی آباد کاروں کی بستیاں اور وادیِ اردن کا علاقہ شامل ہے۔اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں غربِ اردن پر فوجی قبضہ کرلیا تھا۔فلسطینی غربِ اردن کے تمام علاقے کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے کہا ہے کہ ”فلسطینی ریاست کے صرف اسی نقشہ کو قبول کیا جاسکتا ہے جو 1967ء کی جنگ سے قبل کی سرحدوں کے مطابق ہو اور جس کا دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو۔”
واضح رہے کہ اسرائیل نے غربِ اردن کے علاقے پر قبضے کے بعد وہاں یہودی آبادکاروں کو لابسانا شروع کیا تھا۔اس وقت اس فلسطینی علاقے میں اسرائیلی بستیوں میں آبادکاریہودیوں کی تعداد چار لاکھ سے متجاوز ہوچکی ہے اور مشرقی القدس میں مزید دو لاکھ یہودی آباد کار رہ رہے ہیں جبکہ غربِ اردن میں آباد فلسطینیوں کی تعداد تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
فلسطینیوں کے علاوہ بین الاقوامی برادری اور ادارے اسرائیل کے فوجی انتظام میں یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی وجہ سے فریقین میں امن معاہدہ مشکل ہوجائے گاجبکہ امریکا اس معاملے میں اسرائیل کا ہم نوا ہے اور وہ ان بستیوں کو غیرقانونی قرار نہیں دیتا ہے اور حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان بستیوں پر اسرائیل کی عمل داری تسلیم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔