واشنگٹن (جیوڈیسک) معاہدے کے تحت بحیرہ احمر سے ایک پائپ لائن کے ذریعے پانی بحیرہ مردار میں ڈالا جائیگا۔
اسرائیل، اردن اور فلسطین کے درمیان پانی کا معاہدہ طے پا گیا ہے جس سے تینوں ملکوں میں پانی کی قلت کو دور کیا جا سکے گا۔ تینوں ملکوں کے درمیان پانی کا معاہدہ واشنگٹن میں ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹرز میں ہوا۔ اس منصوبے پر دو سو پچاس ملین ڈالر سے چار سو ملین ڈالر لاگت آئے گی۔
منصوبے کے تحت بحیرہ احمر سے ایک پائپ لائن کے ذریعے پانی بحیرہ مردار میں ڈالا جائیگا تا کہ اسے سوکھنے سے بچایا جا سکے جبکہ اردن میں ایک ڈی سالینیشن پلانٹ لگا کر سمندر کے پانی کو استعمال کے قابل بنایا جائیگا جس سے خطے کے عوام کو 80 سے 100 ملین کیوسک میٹر صاف پانی مل سکے گا اور تینوں ممالک میں پانی کی بڑھتی ہوئی مانگ پر قابو پایا جا سکے گا۔
ادھر ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے اردن کے پانی کو زراعت کے لیے استعمال کرنے کی وجہ سے بحیرہ مردار میں پانی کی سطح میں سالانہ ایک میٹر یعنی تین اعشاریہ تین فٹ کمی واقع ہو رہی ہے تاہم ناقدین نے اس منصوبے کے بحیرہ مردار کے ماحولیاتی نظام پر مرتب ہونے والے اثرات پر سوال اٹھایا ہے۔
اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان امن مذاکرات تو آگے نہیں بڑھ رہے لیکن اس حوالے سے تعاون خوش آئند بات ہے۔ بحیرہ مردار میں نمک اور دیگر معدنیات کی اتنی زیادہ مقدار ہے کہ اس میں انسان ڈوبتا نہیں اور اسی وجہ سے یہ ایک مشہور سیاحتی علاقہ ہے لیکن اس سمندر میں پانی میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور کئی ماہرین کا خیال ہے کہ 2050 تک یہ بالکل خشک ہو جائے گا۔
اس معاہدے کے تحت پائپ لائن کے ذریعے بحیرہ احمر کے قریب خلیج عقبہ سے بحیرہ مردار کے جنوبی حصے میں پانی لایا جائے گا۔ اس پراجیکٹ میں پہلے اردن میں پانی میں سے نمک نکالنے کا پلانٹ لگایا جائے گا۔ اس پلانٹ کے ذریعے اسی سے سو ملین کیوسک میٹر پانی اردن، غربِ اردن اور اسرائیل کے لیے تیار کیا جا سکے گا۔
پانی کی منتقلی کے اس معاہدے کے تحت اسرائیل اردن اور فلسطینی علاقوں کو سمندر کے شمال سے پانی مہیا کرے گا۔ فرینڈز آف ارتھ مڈل ایسٹ نامی گروپ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس پراجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے ماحولیاتی تجزیہ کیا جائے۔