جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن پارلیمان نے اسرائیل سے غرب اردن کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اپنے منصوبوں سے باز رہنے کو کہا ہے تاہم اس نے اسرائیل کے خلاف پابندیاں نافذ کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
جرمنی نے فلسطینی علاقے غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ پارلیمان میں اس سے متعلق قرارداد انگیلا میرکل کی مخلوط حکومت میں شامل تین سیاسی جماعتوں نے پیش کیا تھا اور کسی مخالفت کے بغیر اسے منظور کر لیا گیا۔
اس موقع پر جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے علاوہ سبھی سیاسی جماعتوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ غرب اردن کو ضم کرنے کے اسرائیلی منصوبے سے اسرائیل کی سکیورٹی اور دو ریاستی حل کا منصوبہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اس منصوبے سے مشرقی وسطی میں پورے خطے کی سکیورٹی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”یک طرفہ کارروائیوں سے امن نہیں حاصل کیا جا سکتا۔” لیکن اے ایف ڈی کا کہنا تھا کہ غرب اردن کا انضام اسرائیل کے قومی مفاد میں ہے۔
جرمن پارلیمان نے اسرائیلی منصوبے کو مسترد تو کردیا تاہم اس حوالے سے اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ اس کا کوئی تعمیری اثر مرتب نہیں ہوگا۔ جرمنی کی طرف سے یہ پالیسی ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب یورپی یونین کی صدارت جرمنی کو ملنے والی ہے۔ یعنی اس سلسلے میں مستقبل میں یوروپی یونین کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کی پابندی کا امکان کم ہے۔
اس سے متعلق قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یکطرفہ طور پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ”بات چیت کرنے یا پھر پابندیوں سے متعلق دھمکیاں دینے سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے عمل پر تعمیری اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔”
اسرائیل کو اپنے اس منصوبے پر یکم جولائی سے عمل شروع کرنا تھا تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کو اس پر اب بھی کچھ تحفظات ہیں اس لیے اس میں پلان میں تاخیر ہو رہی ہے۔
بدھ کو اسرائیلی وزیر خارجہ گابی اشکینازی نے کہا تھا کہ غرب اردن کو اسرائیل کے ساتھ ملانے کے مجوزہ اقدام پر مقررہ تاریخ پر عمل ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ان کا تعلق مخلوط حکومت میں شامل نیتن یاہو کی حریف جماعت بلو اینڈ وائٹ پارٹی سے ہے۔
پارٹی کے سربراہ وزیر دفاع بینی گینٹز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے میں جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں اور اسرائیل کو اس وقت اپنی تمام تر توجہ کورونا کے بحران پر دینی چاہیے۔
لیکن وزیراعظم نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ اس پلان پر جلد از جلد عمل کیا جائے۔ اسرائیل کے اس مجوزہ اقدام کو اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب ممالک کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ تاہم بینجمن نیتن یاہوکو یک طرفہ الحاق کے اس منصوبے میں امریکی صدر ٹرمپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
ادھر غزہ اور غرب اردن میں اسرائیل کے اس مجوزہ منصوبے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا ایسا کوئی اقدام ”اعلان جنگ” تصور کیا جائے گا، جبکہ فلسطینی انتظامیہ نے کہا ہے کہ اگر نیتن یاہو فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کی کوششوں سے باز آجائیں تو وہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنے پر غور کر سکتے ہیں۔