ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے کہا ہے کہ اسرائیل نے اتوار کو نطنز میں قائم اس کے جوہری پلانٹ پر حملہ کر کے بڑی غلطی کی ہے، جس کا اُسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
منگل کو تہران میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کے عمل سے ایران کمزور ہو گا تو یہ اسُ کی بھول ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حرکت سے ویانا میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جاری مذاکرات میں ایران کی پوزیشن کمزور ہونے کی بجائے مزید سخت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ”میں یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل قریب میں نطنز کے مرکز میں ہم یورینیم کی افزودگی کے لیے زیادہ جدید سینٹری فیوجز تیار کریں گے۔‘‘
اس موقع پر روسی وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی طرف سے ایران پر عائد پابندیوں کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے موقع پر، جب دنیا کی کوشش ہے کہ ایران کے ساتھ سن دو ہزار پندرہ کے ایٹمی معاہدے کو بحال کیا جائے، اس طرح کے اقدامات مشکلات پیدا کریں گے۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں پچھلے ہفتے عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان مذاکرات کو فریقین نے ‘مثبت‘ اور ‘تعمیری‘ قرار دیا تھا۔ مبصرین کے مطابق نطنز پر حملے نے مذاکرات کی فضا کو متاثر کیا ہے اور دونوں جانب سے رویے سخت ہونے کا امکان ہے۔
امریکا ابھی ان مذاکرات میں براہ راست شامل نہیں تاہم وہ بالواسطہ طور پر بات چیت کا حصہ ہے۔
اسرائیلی حکام نے ابھی باضابطہ طور پر ایران کے الزامات پر کچھ نہیں کہا تاہم وہاں کے میڈیا میں نامعلوم سرکاری ذرائع نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اسرائیل خود ایک غیراعلانیہ ایٹمی طاقت سمجھا جاتا ہے لیکن وہ ایران کی طرف سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔
امریکا نے فی الحال نطنز کے واقعے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ واشنگٹن نے نہ اسرائیل کے حق میں کوئی بات کی ہے نہ ہی اس مبینہ حملے کی مذمت کی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکا کو یک طرفہ طور پر ایرانی کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے سے الگ کر دیا تھا۔ تاہم صدر جو بائیڈن کی حکومت واپس اس سمجھوتے کو بحال کرنا چاہتی ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے پہلے واشنگٹن کو ایران پر عائد تمام پابندیاں اٹھانی ہوں گی۔
عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ویانا میں اس ہفتے منگل سے مزید مذاکرات متوقع ہیں۔