11 روزہ اسرائیلی درندگی کے بعد بالآخر ارضِ فلسطین میں جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔ اِس دوران وحشتوں کے ایسے ایسے مظاہر سامنے آئے جنہیں دیکھ کر روح تک لرز اُٹھی اور ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر ڈیڑھ ارب سے زائد مسلم اُمّہ کے کرتا دھرتا کب خوابِ غفلت سے بیدار ہوںگے۔ لبنان اور مصر کے درمیانی علاقے کو فلسطین کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کے قدیم ترین علاقوں میں شامل ہے۔ 1948ء سے پہلے تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا جس کا دارالخلافہ بیت المقدس تھا۔ 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو 2 حصوں میں بانٹنے کا اعلان کیا۔ ایک حصّہ یہودیوں اور دوسرا حصّہ عربوں کو دے دیاگیا۔ یہودیوں نے اقوامِ متحدہ کے اِس فیصلے کو قبول کر لیا لیکن فلسطینیوں نے انکار کر دیا کیونکہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ صریحاََ زیادتی تھی۔ تب سے اب تک یہودیوں اور فلسطینیوں میں جنگ جاری ہے۔ 1967ء میں یہودیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور 7 لاکھ فلسطینیوں کو بے دخل کرکے بیت المقدس کا نام یروشلم رکھ دیا۔ اب اِس علاقے کے بیشتر حصّے میں یہودی آباد ہیں۔
11 روزہ اسرائیلی درندگی کے دوران امریکہ ڈَٹ کر اسرائیل کی پُشت پر کھڑا رہا۔ اِس دوران سلامتی کونسل کے 4 اجلاس ہوئے جنہیں امریکہ نے کسی نتیجے پر نہ پہنچنے دیا۔ جب غزہ اسرائیلی فوجوں کی بمباری سے ملیامیٹ ہونے کے قریب تھا، تب پوری دنیا اِس درندگی پر چیخ اُٹھی اور امریکہ بھی جنگ بندی پر راضی ہوا۔ جنگ بندی کے اگلے ہی روز جب فلسطینی نمازِ جمعہ کے بعد جنگ بندی کا جشن منا رہے تھے، اسرائیلی فوجیوں نے اُن پر حملہ کر دیا، ربڑ کی گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے شیل پھینکے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جنگ بندی محض وقتی بندوبست ہے، مستقل حل نہیں۔ اگراسلامی ممالک کے سربراہان مستقل حل کے لیے اقوامِ متحدہ سے رجوع کرتے ہیں تو عبث کہ اِس کی قراردادوں سے کبھی قومِ مسلم کا بھلا نہیں ہوا۔ قارئین کو یاد ہووگا کہ 1948ء ہی میں اِسی اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر استصواب رائے کی قرارداد پاس ہوئی جس پر نہ صرف یہ کہ آج تک عمل درآمد نہیں ہو بلکہ مودی کشمیر کو ہڑپ کر چکااور ہم ہاتھ ملتے اقوامِ متحدہ کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ اب ہمارا کام بس اتنا ہی رہ گیا ہے کہ ہمارے سربراہان ہر سال اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاسوں میں کشمیر پربڑی جذباتی تقریریں کریں اور پاکستان میں اُن کے حواری تالیاں پیٹیں۔
ہر سال 5 فروری کو پاکستان میں یومِ کشمیر بڑے دھوم دھڑکے سے منایا جاتا ہے، ہاتھوں کی زنجیر بنائی جاتی ہے، جلوس اورریلیاں نکلتی ہیں اور جلسوں میں جذباتی خطاب بھی سنائی دیتے ہیں۔ اِس کے بعد ہم بھول جاتے ہیں کہ کشمیر نامی کوئی وادی بھی ہے جس میں اب بھی بھارتی درندگی سے لاشیں گِر رہی ہیں اور کشمیر کی عفت مآب بیٹیوں کے سروں سے ردائیں چھینی جا رہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی باری تو تب آئے گی جب ہم اندرونی طور پر مضبوط ہوںگے۔ فی الحال تو ہمارے رَہنماء اپوزیشن سے ہی نپٹ کر اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کی تگ ودَو میں ہیں۔ باوجود اِس کے کہ حکمرانوں کا کرپشن والا بیانیہ بُری طرح پِٹ چکا لیکن ”نہیں چھوڑوںگا” اور ”این آر او نہیں دوںگا” کی تکرار اب بھی جاری۔ قوم جب حکمرانوں سے روٹی کا سوال کرتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ روٹی پچھلی حکومتیں چھین کر بھاگ گئیں۔ جب مہنگائی کا رونا رویا جاتا ہے تو پھر وہی جواب کہ سب کیا دھرا پچھلی حکومتوں کا ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی فرما دیا جاتا ہے ”قوم میں صبر نہیں”۔ صبر تو تب ہو جب اُمید کی کوئی کرن نظر آتی ہو لیکن جب بین الاقوامی سرویز بَدتر مستقبل کی نشاندہی کرتے نظر آرہے ہوں، خود حکمران باہم جوتم پیزار ہوںاور اپوزیشن ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی ہو تو پھر صبر کہاں، قرار کہاں۔
تحریکِ انصاف سے قوم نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں لیکن اب وہ خود اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ شاہ محمود قریشی گروپ اور جہانگیر ترین گروپ آمنے سامنے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین گروپ کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ” بجٹ آنے والا ہے، اِس کی مخالفت کرنے والوں کی پارٹی رکنیت متاثر ہو سکتی ہے۔ تمام منتخب ارکان پارٹی ڈسپلن کے پابند ہیں۔ فنانس بِل پر کوئی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرے گا تو اُس کی رُکنیت ختم ہو سکتی ہے”۔ یہ شاہ محمود قریشی کی سیدھی سادی دھمکی ہے جس میں صلح جوئی کا کوئی عنصر نظر نہیں آتا۔ اُدھر جہانگیر ترین نے اپنی رہائش گاہ پر عشائیے کا اہتمام کیاجس میں ”جہانگیر ترین ہم خیال گروپ” تشکیل پایا اور شنید ہے کہ پنجاب اسمبلی کے 30 ارکان نے ہمیشہ جہانگیرترین کا ساتھ دینے کا حلف بھی اُٹھایا۔ اُسی عشائیے میں پنجاب اسمبلی میں جہانگیر ترین گروپ کا پارلیمانی لیڈر بھی مقرر کیا گیا۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پنجاب اسمبلی کے کچھ ارکان نے جہانگیر ترین کو پی ٹی آئی کا متبادل قائد بھی قرار دیا۔ یہ صورتِ حال وزیرِاعظم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے لیکن اُن کا ٹارگٹ اب بھی اپوزیشن ہی ہے۔
جس کرپشن کے بیانیے کو لے کر تحریکِ انصاف سامنے آئی، اب وہی بیانیہ اُس کے گلے میں پڑ رہا ہے۔ ہر روز کرپشن کا کوئی نہ کوئی نیا سکینڈل سامنے آ جاتاہے۔ تازہ ترین سکینڈل راولپنڈی رِنگ روڈ کا ہے جس میں وزیرِاعظم کے قریبی دوست زُلفی بخاری استعفیٰ دے چکے۔ زُلفی بخاری کے بارے میں خاں صاحب کو یہ تک علم نہیں کہ اُس کا کاروبار کیا ہے۔ وہ لندن سے پاکستانیوں کی قسمت بدلنے آیا تھا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ پاکستانیوں کی قسمت بدلنے نہیں، خاںصاحب پر کی گئی سرمایہ کاری کو سود سمیت واپس لینے کے چکر میں تھا۔ یہی المیہ جہانگیرترین کا ہے۔ ماضی قریب میں اُسے خاںصاحب کا اے ٹی ایم قرار دیا جاتا تھا۔ وہ بھی اپنی سرمایہ کاری سود سمیت واپس لینے کا پروگرام بنائے بیٹھا تھا۔ حقیقت یہ کہ یہ ارب پَتی سرمایہ دار خواہ پاکستان کے ہوں یا امریکہ اور لندن کے، سبھی پاکستان کو چونا لگانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ زُلفی بخاری اور جہانگیرترین ہی کیایہاں تو ”اسبغول تے کچھ نہ پھرول”۔ ادویات کے سکینڈل کے پیچھے بھی ایک وزیر، ایل این جی گیس امپورٹ کے 100 ارب سے زائد کا سکینڈل ہو یا 25 ارب کے تیل کا سکینڈل، راولپینڈی رِنگ روڈ سکینڈل ہو یا بھارت سے ادویات منگوانے کا سکینڈل، سبھی کے پیچھے وہی لوگ جو وزیرِاعظم کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے۔ ایسے میں وزیرِاعظم کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں۔ خود گھر کے چراغوں سے گھر کو آگ لگ رہی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جہانگیرترین گروپ کو منانے کی کوئی سبیل نکالی جاتی لیکن یہاں بھی جلتی پر تیل ڈالا جا رہا ہے۔ فیصل واوڈا کے وزیرِاعظم کے ساتھ قریبی تعلقات کا کسے علم نہیں۔ جب پتہ چلتا ہے کہ واوڈا کی قومی اسمبلی کی نشست چھِن رہی ہے تو اُسے فوری طور پر سینیٹر منتخب کروا دیا جاتا ہے۔ اُس نے جلتی پر یہ کہتے ہوئے تیل ڈالا کہ جہانگیرترین کو اللہ نے عمران خاں کے وسیلے سے عزت دی۔ انتخابات میں ووٹ عمران خاں کو پڑا اِس لیے ترین کو اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہیے۔ قد اگر باپ سے بڑا ہو جائے تو وہ باپ نہیں کہلا سکتا۔ فیصل واوڈا نے یہ بھی کہا ”جہانگیرترین کا پورا گروپ محض ایک ایس ایچ او کی مار ہے مگر ہم وہ سیاست نہیں جانتے کہ پولیس کی موبائل بھیجیں”۔ سچ کہا ہے فیصل واوڈا نے لیکن جہاں تک پولیس موبائل بھیجنے کا تعلق ہے اُس کی تحریکِ انصاف کو ضرورت نہیں کیونکہ یہ سارا کام وہ نیب اور ایف آئی کے ذریعے بطریقِ احسن سر انجام دے رہی ہے اور قوم بھی شب وروز یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔