غزہ (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ لڑائی کے پانچویں روز اسرائیل کے غزہ پر حملوں میں شدت آ گئی ہے اور دوسری طرف فلسطینی جنگجوؤں نے بھی اسرائیل پر راکٹ برسانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
اسرائیل فوج کا کہنا ہے کہ فضائی اور زمینی فورسز نے جمعہ کو ہونے والے حملوں میں حصہ لیا، تاہم ابھی تک وہ غزہ میں داخل نہیں ہوئی ہیں۔
غزہ سے بھیجی جانے والی ایک ویڈیو میں اسرائیلی آرٹلری، مسلح کشتیوں، اور فضائی بمباری کی وجہ سے غزہ کے اوپر روشن آسمان دیکھا جا سکتا ہے۔
مغربی کنارے میں جاری بدامنی کے حوالے سے یہ اطلاعات ملی ہیں کم ازکم 10 فلسطینی ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔
فلسطینیوں کی جانب سے پیٹرول بم پھینکے جانے پر اسرائیلی فوج نے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور براہ راست فائرنگ کی ہے۔
اب تک غزہ میں 126 اسرائیل میں آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دریں اثنا خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کا نشانہ اس وقت غزہ میں موجود نئی سرنگیں بھی ہیں جنھیں فلسطینی جنگجو استعمال کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فوجی کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کورنیکس نے روئٹرز کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر حملے میں 160 جہاز، ٹینک اور آرٹلری حصہ لے رہی ہے۔
یہ سنہ 2014 کے بعد سے ہونے والی شدید ترین لڑائی ہے۔
جمعے کو دنیا کے کئی مسلم اکثریت والے ممالک میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں جن میں بنگلہ دیش، اردن، کوسوو، اور ترکی شامل ہیں۔
تاہم یورپ میں کچھ مظاہروں میں یہودی مخالف نعرے اور توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ پیرس میں پہلے سے طے شدہ ایک احتجاجی مظاہرے پر پرتشدد جھڑپوں کے خطرے کے پیشِ نظر پابندی لگا دی گئی ہے۔
جرمنی میں مظاہرین کی جانب سے اسرائیلی پرچم نذرِ آتش کیے جانے کے بعد چانسلر اینگلا مرکل کے ترجمان نے تنبیہہ کی ہے کہ یہودیوں سے نفرت پر مبنی مظاہروں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیرس میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے پر پابندی کے بعد مظاہرے کے منتظمین نے اس پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ منتظمین کے وکلاء کا کہنا ہے کہ پابندی غیر متناسب اور اس کے سیاسی مقاصد ہیں۔ وکلاء توقع کر رہے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ کل یعنی سنیچر کی صبح تک آ جائے گا۔
ایک طرف غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری ہے تو دوسری طرف اس وقت خود اسرائیل کے اندر بھی پرتشدد واقعات پھوٹ پڑے ہیں۔
جب اسرائیل نے بدھ کی رات کو غزہ پر فضائی حملے شروع کیے تو حریف یہودی اور اسرائیل میں بسنے والے عرب باشندوں نے ملک کے مختلف شہروں میں کاروبار، کاروں اور لوگوں پر حملے شروع کر دیے۔
اسرائیل کی اندرونی صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اسرائیلیوں کی طرف سے ملک میں بسنے والے عرب شہریوں اور عربوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر تشدد کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔‘
انھوں نے ملک میں جاری صورتحال کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے ملک میں جاری ان پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ میں جاری لڑائی کے دوران اسرائیل کے اندر بھی پرتشدد ہنگامے اور واقعات پھوٹ پڑے ہیں، جن میں عرب اور اسرائیلی شہریوں کو بے دردی سے مارا پیٹا گیا ہے اور پولیس تھانوں پر حملے بھی ہوئے ہیں۔
پیر سے اب تک اسرائیل کے اندر سات افراد مارے گئے ہیں اور تشدد کو روکنے کے لیے ایک ہزار پولیس کی نفری طلب کی گئی ہے۔
پولیس کے ترجمان مائیکی روزن فیلڈ نے کہا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں جس قسم کا نسلی تشدد دیکھنے میں آیا ہے یہ کئی دہاہیوں سے دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس طاقت کے استعمال میں اضافہ کر رہی ہے۔
انھوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہروں میں، جہاں انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی اسرائیل کی سیکورٹی فورسز اور اسرائیلی میں بسنے والے عربوں سے جھڑپیں ہوئی ہیں، فوج بھی تعینات کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینٹز نے شہر میں جاری بد امنی کی روک تھام کے لیے سکیورٹی فورسز کی ‘اضافی نفری طلب کرنے’ کا حکم دیا ہے جبکہ 400 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
بدھ کو ایک ٹی وی فوٹیج سامنے آئی جس میں ایک انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ہجوم تل ابیب کے پاس بیت یم کے مقام پر ایک شخص کو عرب سمجھ کر بری طرح پیٹ رہا تھا۔ اس شخص کو ہجوم نے اس کی کار سے گھسیٹ کر باہر نکال کر تشدد کیا، جس کے نتیجے میں یہ شخص شدید زخمی ہوا ہے۔
اس ہجوم نے اس سے قبل شہر میں عرب شہریوں کی املاک کو بھی نشانہ بنایا اور توڑ پھوڑ کی۔
ہجوم کا مؤقف تھا کہ جس شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اس نے انھیں کار کے نیچے دینے کی کوشش کی ہے جبکہ ٹی وی پر یہ مناظر براہ راست دکھائے گئے اور ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص صرف اپنی گاڑی موڑ کر کے اس ہجوم سے جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔
جب اس شخص کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہوتا ہے تو 15 منٹ تک پولیس اس جگہ پر نہیں پہنچتی۔ تل ابیب کے ایک ہسپتال میں اب اس شخص کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔
دوسری جانب ہے اسرائیل کا شہر لُد، جو اس ہفتے عرب، یہودی فسادات کا مرکز بن گیا ہے۔ یہاں ایک عرب شہری گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا اور ایک کنیسا پر حملہ بھی ہوا جہاں ایک مسلح شخص کی فائرنگ سے ایک یہودی زخمی ہوا ہے۔
جب یہ شخص سڑک پر ساکت حالت میں پڑا تھا تو اسے یہ ہجوم بار بار مار رہا تھا، جس کے بعد یہ ہجوم اس شخص کو سڑک کے درمیان پڑا چھوڑ کر چلا گیا۔
اس پر اسرائیل کے وزیر اعظم نے بیان دیا کہ یہ تشدد ناقابل قبول ہے اور کسی عرب کو کسی یہودی اور کسی یہودی کو کسی عرب پر تشدد کا حق نہیں پہنچتا۔
دوسری جانب ایک اور شہر، عکا میں ایک کار پر پتھراؤ کیا گیا۔ جب اس کار کے ڈرائیور نے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے ڈنڈوں سے مارا پیٹا گیا اور وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے سر کو بچانے کی کوشش کرتا رہا۔
اس واقعے کی ہر طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان بیتزیل سموٹریچ نے کہا ہے کہ وہ اس واقعے پر شرمندہ ہیں۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے میرییٹز پارٹی کے عرب قانون ساز ایسووی فریڈج نے کہا ہے کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہودی ہجوم حیفا اور تبیریاس کی سڑکوں پر ’عرب مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے نکل آئے۔ اخبار کے مطابق یروشلم کی ماہانے یہودا مارکیٹ میں بھی ایک عرب کو چھرا مار کر ہلاک بھی کیا گیا ہے۔
جمعرات کو اسرائیل نے پرتشدد واقعات کی وجہ سے یروشلم، حیفا، تمارا اور لُد میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
عکا کے مقام پر اسرائیل کے چند عرب شہریوں نے ایک 30 سال سے زائد عمر کے یہودی کو تشدد کا نشانہ بنایا جو ابھی گلیلی میڈیکل سینٹر میں انتہائی تشویشناک حالت میں ہے۔ پولیس کے مطابق ان عرب شہریوں نے ہاتھ میں ڈنڈے اور لوہے کے راڈ تھام رکھے تھے۔
اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے بھی ان پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملات ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ یہودی اور عرب فسادیوں نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ لد اور عکا میں جن لوگوں نے تشدد کیا ہے وہ اسرائیلی عربوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی وہ لوگ یہودیوں کے نمائندہ ہیں جنھوں نے بیت یام میں پرتشدد کارروائیاں کیں۔
اسرائیل کی آبادی میں 21 فیصد ایسے لوگ ہیں جو اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔ دسمبر میں اسرائیل کے ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی 1.96 ملین آبادی اسرائیلی عربوں پر مشتمل ہے۔
سنہ 1948 کی جنگ میں لاکھوں عرب شہری اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اسرائیل میں رہ جانے والوں کو اسرائیل کی شہریت دے دی گئی جو اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔
ان اسرائیلی عربوں کی 80 فیصد تعداد مسلمان ہے۔ دیگر عرب اپنے آپ کو مسیحی یا دروز مذاہب کے پیروکار کہلاتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے عربوں کی ہے جو اپنے آپ کو اسرائیل کے فلسطینی شہری کہلاتے ہیں۔
اسرائیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے عرب شہری برابری کے سماجی اور سیاسی حقوق رکھتے ہیں۔ البتہ انھیں ضروری ملٹری سروس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ تاہم ان اسرائیلی عربوں کا مؤقف ہے کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انھیں قانونی، ادارہ جاتی اور سماجی تعصبات کا سامنا رہتا ہے۔