1914 ء میں فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کی آبادی صرف 80 ہزار تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب یہودیوں کی تعداد خاصی ہو گئی تو انگریزوں نے بلاآخر فلسطین کی تقسیم کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔1948ء میں جب اسرائیل ایک الگ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پہ ابھرا تو اس وقت اس کا ٹوٹل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔جبکہ اب اسرائیل کا رقبہ 34 ہزار مربع میل اور آبادی 57 لاکھ ہے۔1967ء میں پھر ایک جنگ کا آغاز ہوا تو اس جنگ میں اسرائیل نے مصر سے غزہ کی پٹی بھی چھین لی اور ہر نئی جنگ کے بعد اسرائیل عربوں کے مزید علاقوں پر قابض ہوتا چلا گیا۔لیکن 1967ء کی جنگ میں اسے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور اس کانام یروشلم رکھ دیا۔
اسرائیل جو کہ آج اسلحہ پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک بن چکا ہے اس کا وجو د دراصل انگریزوں کا ہی مرہون منت ہے۔اور ابھی بھی اسرائیل کی معشیت کا پہیہ امریکی امداد سے ہی رواں دواں ہے۔یہ عمل سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہودی ایسا کون سا ٹونا یا فارمولا استعمال کرتے ہیں کہ امریکہ اس کی ہر بات ماننے پر عاجز آ جاتا ہے۔دراصل ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج امریکہ کے تمام فیصلہ ساز ادارے یہودی لابی ہی کے ماتحت ہیں اور پینٹا گون میں بھی یہودی ہی قابض ہیں۔
اسرائیل صرف فلسطینیوں ہی کی نہیں بلکہ تمام امتِ مسلمہ کی نسل کشی کرنا چاہتاہے۔ کیونکہ یہودی مسلمانوں کو ہی اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے ہیں۔ان کے کند ذہنوں میں جنم لینے والی ہر سوچ میںمسلمانوں کو ہی نقصان پہنچانے کا ارادہ شامل ہوتا ہے ۔ان کی بد نیتی اور بد دیانتی کی گواہی تو اللہ نے بھی دی ہے اور قرآن میں بڑے واضح الفاظ میں ان کے بارے ارشاد فرمایا۔کہ ”اے ایمان والو! یہود و نصاری کو کبھی دوست مت بناوً وہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے پھر بھی اگر کوئی ان سے دوستی رکھے تو بس پھر وہ ان ہی میں سے ہے۔ (سورہ المائدہ ۔آیت 51)۔ غزہ کی پٹی میں معصوم فلسطینیوں کا قتل عام انتہائی قابل افسوس بات ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی ہی کم رہے گی۔
کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں محصور کر کے تشدد و بربریت کا نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔نہ تو انہیں معاف کیا جار ہا ہے اور نہ ہی آزاد کیا جا رہا ہے۔لیکن اسرائیل کی اس تمام جارحیت پر اسلامی ممالک کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ان کا عمل صرف ایک خاموش تماشائی کی حد تک کیوں محدود ہے۔کیا عالم اسلام اپنے مقابلے میں یہودیوں سے خوفزدہ ہے اور اگر ہے تو کیوں ہے۔ کیا اسلامی ممالک کا آپس میں اتحاد یا احساس کا تعلق بھی نہیں رہا ۔یہودی آج بھی اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔دوسرے ملکوں کی بات الگ رہی اگر ہم اپنے ملک کے حکمرانوں کا ہی احتساب کر لیں تو کافی ہو گا ہمارے حکمران جو کہ امریکہ کے نہیں دراصل یہودیوں کے ہی غلام ہیں اور ان کی سازشی امداد پر پل رہے ہیں تو خود سو چیں کہ یہ ان کے خلاف بول کر اپنے پاوًں پر کلہاڑی کیوں ماریں گے۔
Israel
وہ لوگ جو خود کو اسرائیل کا حامی مانتے ہیں یہ لوگ انسانی تباہی کے حامی ہیں۔جارحیت سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ یہ مسائل کو دعوت دیتی ہے ۔اور امن لانے کے لئے کوئی خاص عرصہ درکار نہیں ہوتا اگر اچھی نیت سے ارادہ کیا جائے تو مسئلہ حل کرنے میں بھی اتنا ہی عرصہ لگتا ہے جتنا کہ جنگ وغیرہ کے آغاز میں ۔فلسطین ایک الگ ریاست ہے اور فلسطینی ایک الگ قوم۔یہ انتہائی غلط اور غیر انسانی قدم ہے کہ فلسطینیوں پر یہودیوں کو مسلط کر دیا جائے۔ فلسطینی عوام اسرائیلی غاصبوں سے اپنی مکمل آزادی چاہتی ہے اور جب تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو جاتے ان کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ ا سرائیل کے اس ظلم و ستم پر تو اب امریکہ میںبھی انسانی حقوق کی تنظیمیں بلبلا اٹھی ہیں ۔میڈیا پراسرائیل کے خلاف دکھائے جانے والے ایک مظاہرے میں ایک شخص نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر انگریزی میں ایک عبارت لکھی تھی جس کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ‘ میں ایک امریکی یہودی ہوں لیکن اسرائیلی جارحیت کی پر زور مذمت کرتاہوں لہذا اسرائیل فلسطینیوں پر فوراً قتل و غارت بند کرے۔
فلسطین کے معاملے میں تو اقوام متحدہ کا کردار تو بالکل صفر رہاہے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس ادارے کا وجود بھی ہمارے پیمرا سے کافی ملتا جلتا ہے۔ ان دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک جارحیت کو روکنے میں ناکام ہے تو دوسرا اخلاقیات کو نافذ کروانے میں۔ اس وقت صرف اسلامی ممالک کو متحد ہو کر اپنی ایک ایسی یونین بنانی چاہیے کہ اگر ایک اسلامی ملک پر بھی حملہ کرے تو باقی 56 اسلامی ممالک اس حملہ آور پر فوراً برس پڑیں ۔ اور انفرادی طور پر بھی ہر اسلامی ملک کو چاہیے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے خود کو ایٹمی طاقت سے مالا مال کرکے اپنے دفاع کو مظبوط کرے اور اس سلسلے میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد و تعاون بھی کرنا چاہیے۔ پاکستان کی طرح اگر فلسطین بھی ایک ایٹمی طاقت ہوتا تو شائد آج وہ خود پر ہونے والے ظلم کا خا طر خواہ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا۔ابھی بھی وقت ہے اور ہر اسلامی ملک خود کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے کوشیشیں شروع کر دے کیونکہ اسی میں ہی ان کی خیروعافیت ہے۔
آج فلسطین پرہونے والے حملے دوسروں کے لئے ذندہ مثال ہیں۔ لیکن عالم اسلام خاموش تماشائی بنا رہا آخر کیوں۔ ہم سے بہتر تو یہ پرندے ہی ہیں جن کے بارے یہ ایک چھوٹی سی مثال باشعور لوگوں کے لئے کافی رہے گی۔کہ جیسے کہ اگر کبھی کوئی انسان چڑیا کے اس بچے کو پکڑ لیتا ہے جو ابھی اڑان کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہو تو چڑیوں کا سارا گروہ اس بندہ کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور ایسا شور و واویلا مچاتا ہے کہ آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔اور کئی چڑیاں تو ایسی ہوتی ہیں کہ وہ غصے میں بے قابو ہو کر اس آدمی کے سر پر پنجے اور چونچیں بھی مار دیتی ہیں اور وہ اپنا یہ سلسلہ جاری رکھتی اس وقت تک کہ جب تک وہ آدمی اس کے بچے کو آزاد نہیں کر دیتا۔لیکن انسان کی کیسی بے حسی ہے کہ معصوم فلسطینی بچوں پر ایسے ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے گئے کہ ان کی جانیں تک چلی گئیں لیکن امت مسلمہ خاموش رہی ۔ آج بھی تیل کی سپلائی بند کر کے مغربی ممالک پر دباوً ڈالا جا سکتا ہے۔ یہودی کمپنیوں کی پراڈکٹس کی خرید پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ اور تمام اسلامی ملک متحد ہو کر ایسے اقدامات کریں کہ ڈرانے اور دھمکانے کے لئے اسرائیل کے سر پر ایک پنجہ ہی سہی۔ اور اس کے لئے جرات اور ذندہ دلی کی ضرورت ہے اور ایسے دلوں کے بارے ہی اقبال صاحب نے فرمایا تھا کہ۔ یا رب دل مسلم کو وہ ذندہ تمنا دے۔ جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے۔