اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) فلسطینی اتھارٹی، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل کی جانب سے چھ فلسطینی این جی اوز کو ‘دہشت گرد ‘ قرار دینے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
اسرائیلی وزرات دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ ان گروپوں کا تعلق آزادی فلسطین پاپولر فرنٹ(پی ایف ایل ایف) نامی تنظیم سے ہے۔ جو ماضی میں اسرائیلیوں کے خلاف ہلاکت خیز حملوں میں ملوث رہی ہے۔
جن چھ فلسطینی گروپوں کو ممنوعہ قراردیا گیا ہے ان کے نام ہیں: فلسطینی خواتین کی کمیٹیوں کی یونین (یو پی ڈبلیو سی)، الضمیر، بیسان سینٹر برائے تحقیق و ترقی، الحق، ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل۔ فلسطین(ڈی سی آئی۔پی) اور یونین آف ایگریکلچرل ورک کمیٹیز(یو اے ڈبلیو سی)۔
ان تنظیموں کو ممنوعہ قرار دینے کے بعد اسرائیلی سکیورٹی فورسیز کے لیے ان پر چھاپے مارنا اور ان کے اراکین کو گرفتار کرنا زیادہ آسان ہوجائے گا۔
اسرائیلی وزارت دفاع کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان گروپوں کا کنٹرول پی ایف ایل پی کے سینئر اراکین کے ہاتھوں میں ہے۔ ان میں ایسے افراد شامل ہیں جو ماضی میں ‘دہشت گردانہ سرگرمیوں’ میں حصہ لے چکے ہیں۔ یہ گروپ سن 1970کی دہائی کے دوران ہوائی جہاز کے اغوا کے واقعات کے لیے بدنام رہا تھا۔
اسرائیل کا الزام ہے کہ ان این جی اوز کے ذریعہ انسانی فلاح و بہبود کے کام کے نام پر یورپی حکومتوں سے حاصل کی جانے والی مالی امداد کا استعمال آزادی فلسطین پاپولر فرنٹ(پی ایف ایل ایف) کی سرگرمیوں کے لیے کیا جاتا ہے۔
وزیر دفاع بینی گینٹزنے دنیا بھر کی حکومتوں اور تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ ان تنظیموں اور گروپوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے سے گریز کریں جو دہشت گردی کی آگ کو ہوا دیتے ہیں۔
پی ایف ایل پی کو امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے فیصلے کے خلاف فلسطینی علاقوں اور بین الاقوامی دونوں ہی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ غیرسرکاری تنظیمیں اسرائیلی بندشوں کے تحت رہنے پر مجبور فلسطینیوں تک ضروری امداد پہنچانے کا واحد ذریعہ ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اسرائیل کے فیصلے کے بعد ان چھ گروپوں کی سرگرمیاں عملاً غیر قانونی ہوجائیں گی۔
ایمنسٹی اور ایچ آر ڈبلیو نے کہا اسرائیلی حکومت کا یہ خوفناک اور غیر منصفانہ فیصلہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تحریک پر ایک حملہ ہے۔ اس فیصلے سے فلسطین کی انتہائی معروف سول سوسائٹی تنظیموں کی سرگرمیاں بند ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
اسرائیل میں فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم عدالہ نے اس فیصلے کو غیر معمولی حملہ قرار دیا جو آمرانہ اور نوآبادیاتی حکومتوں کے طرز عمل پر پورا اترتا ہے اور انسداد دہشت گردی قانون کی آڑ میں سیاسی ظلم و ستم کے مترادف ہے۔
ممنوعہ قرار دیے جانے والی تنظیموں کے رہنماؤں نے اس فیصلے کو سیاسی اغراض پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیلی حکومت کے الزاما ت میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
فلسطین کے اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کے دفتر نے بھی اسرائیلی فیصلے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ اس سے مذکورہ تنظیموں کے سماجی کاموں کو نقصان پہنچے گا۔
دریں اثنا امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ واشنگٹن اپنے اسرائیلی شرکاء سے مذکورہ تنظیموں پر پابندی عائد کیے جانے کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
نیڈ پرائس نے نامہ نگارو ں سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانی حقوق، بنیادی آزادی اور ایک مضبوط سول سوسائٹی کا احترام ذمہ دارانہ گورننس کے لیے انتہائی اہم ہیں۔