غزہ / مقبوضہ بیت المقدس (جیوڈیسک) اسرائیلی واٹرکمپنی نے مقبوضہ مغربی کنارے کے ہزاروں افراد کو پانی کی فراہمی بند کردی جس کی باعث ہزاروں افراد رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق فلسطین ہائیڈرولوجی گروپ کے سربراہ نے کہا کہ بعض فلسطینی علاقے گزشتہ 40 دنوں سے پانی سے محروم ہیں اس کے بعد لوگ مہنگے داموں پانی خریدنے اور کنووں سے پانی حاصل کرنے میں سرگرداں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کئی علاقوں میں پانی راشن کی طرح ذخیرہ کیا جارہا ہے اور فی خاندان دو، تین اور دس لیٹر روزانہ پر گزارا کیا جارہا ہے۔ خبر ایجنسی کے مطابق 40 ہزار کی آبادی والے علاقے جینن میں پانی کی فراہمی نصف رہ گئی ہے اور شدید گرمی میں پانی کی قلت فلسطینی عوام کے مصائب میں اضافہ کررہی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی کمپنی میکوروٹ نے پانی بند کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے بہت سے علاقوں میں پانی کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر کمی تو کی ہے لیکن پانی کی فراہمی بالکل بند نہیں ہوئی۔ مقبوضہ علاقوں کا انتظام سنبھالنے والی ایک اور اسرائیلی ایجنسی کوگاٹ نے کہا ہے کہ پانی کی پائپ لائن پھٹنے سے مردا، بدیا، جمیم ، سلفیت اور توپوخ میں پانی کی فراہمی متاثر ہوئی تھی جو اب بحال کردی گئی ہے۔
اس سے قبل فلسطین میں فی فلسطینی کو 60 لیٹر پانی فراہم کیا جارہا تھا لیکن اسرائیل میں فی فرد کو روزانہ 350 لیٹر پانی دیا جاتا ہے جو عام فلسطینی کے مقابلے میں 5 گنا زائد ہے۔ فلسطینی وزیرِ اعظم رامی حمداللہ نے اپنے بیان میں اسرائیل کی جانب سے پانی بند کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہےکہ اسرائیل کی غیرقانونی آبادیوں کو پانی کی مسلسل فراہمی جاری ہے جب کہ فلسطینی علاقوں میں قحط کی سی صورتحال ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مغربی کنارے کی 2 لاکھ آبادی کو پینے کا بہتا ہوا پانی فراہم نہیں کیا جاتا اور دوسرے ذخائر سے پانی لینے کے لیے اسرائیلی حکام کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔