اللہ نے انسان بنا اس کو اشرف المخلوقات کا نام دیا مگر اس کی خواہشات نے اس کو دنیا میں ذلیل و رسوا کرادیا۔ بہت کم لوگ ہیں جو اللہ کے دیے ہوئے پر قناعت کرتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ایک چیز لی نہیں دوسری کی خواہش نے پہلے سر اٹھا لیا۔بقول شاعر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے بہت نکلے میرے ارماں مگرپھر بھی ہیں کم نکلے
انسا ن کا ہوس ساری زندگی نہی بھرتاکیونکہ دنیا کی رنگینی میں کھوجانے والے لوگ اپنے رب کو بھول جاتے ہیں ۔وہ پیسے کی ہوس میں اندھے ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگ زمین، جائیداد اوربنک بیلنس کے لیے گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔آج اس دنیا میں ہر طرف آپا دھاپی کا دوردورہ ہے۔ ہر شخص کو اپنی فکر ہے ۔کسی کو اپنے سوا دوسرے کا خیال نہیں آتا۔
میرے ایک دوست اور بھائی رائٹر محمد علی رانا نے فیس بک پر ایک بہت عمدہ اورگہری سبق آموز بات تحریر کی۔ پچھلے دنوںملالہ یوسفزئی کودوسری بار نوبل انعام سے نواز گیا۔نوبل پرائز تو اس کو ہی دیاجاتا ہے جو نوبل(امن) کے لیے دنیا بھر میں کام کرتا ہو۔ایسے ہی طنزیہ الفاظ میرے دوست نے ملالہ کے لیے لکھے۔بقول رانا صاحب ملالہ یوسفزئی ایوارڈ کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے روپڑی اورنوبل انعام لینے سے انکار کردیااور روتے روتے ہوئے انہوں نے کہا کہ” مجھے نہیں چاہیے ایسے ایوارڈ۔ میں نے جو کیا انسانیت کے لیے کیا اور انسانیت کے ناطے میں آپ سب سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتی ہوں کہ مجھے ایوارڈ دینے کی بجائے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کردیا جائے تومیں سمجھوں گی کہ مجھے ایوارڈ مل گیا۔
ملالہ کے آنسوؤوں کو دیکھ امریکہ نے اسی وقت ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی منظوری دے دی۔ اس منظوری کے بعد ملالہ کی ہمت اورحوصلہ مزید بڑھ گیا۔اس نے اپنے خطاب میں اور زیادہ سختی پیداکرتے ہوئے کہا فلسطین میں بھی انسان ہیںاور اگر طالبان دہشتگرد ہیں تو یہودی ان سے بدتر دہشتگرد ہیں ۔”کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے تو اس کے آنسوؤوں رکنے کا نام نہیں لے رہے۔رانا صاحب کے یہ الفاظ بہت گہرے مگرذومعنی ہیں۔
اس پوسٹ پر ہر ذی شعور انسان نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق کمنٹس کیے۔رانا صاحب کی یہ تحریر میں نے رات کوپڑھی اور اس کے بعد میں سونے کے لیے چلاگیا۔ میںبطور تجزیہ نگار اکثر اپنے کالموں میں سیاستدانوں کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ جو اچھا کام کرتے ہیں ان کی تعریف کرنا اور جو غلط کام کرتے ہیں ان پر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
Nawaz Sharif
اسی پوسٹ کے سوچ و بچار میں نیند آگئی اس کے بعدمیں کیا دیکھتا ہوں کہ عمران خان اور طاہر القادری نے اپنے دھرنے میں نوازشریف کوبلایا اور نوازشریف بھی فوراًدھرنے میں پہنچ گئے جہاں پران دونوں( انقلابی اور آزادی کے متوالوں) نے میاں صاحب کواپنے گلے لگالیا بالکل ایسے جیسے خان صاحب نے قادری صاحب کو اپنے کنٹینر پر بلاکر گلے لگایا تھا۔پھر دونوں نے میاں صاحب کو بڑابھائی بنالیا اور ساتھ چلنے کا وعدہ کیا۔اس کے جواب میں میاں صاحب نے بھی اپنے دیگر خاندانی افراد کی طرح ان بھائیوں کو حکومت میں شامل کرلیا۔
ایک بھائی کونائب وزیراعظم اور دوسرے کو نائب صدر بنا دیا۔میں ابھی اس ملکی صورتحال پر خوش ہورہاتھا کہ چلو اب ہمارا ملک ضرورترقی کرے گا کیونکہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں تو پہلے ہی حکومت کے ساتھ دینے کا وعدہ اور ارادہ کرچکی ہیں اب خان صاحب اور قادری کی اپوزیشن بھی ختم ہوگئی ۔ایک طرف ملالہ کی طرف سے کیے گئے اقدام کی خوشی سے دل پھولے نہیں سما رہا تھا تو دوسری طرف خان صاحب اور قادری صاحب نے جوکام کیا اس اقدام سے توایسا محسوس ہورہا ہے
جیسے میں پاکستان میں نہیں جنت میں پہنچ گیا ہوں۔میں بڑے فخر سے سکائپ پربیرون ممالک میں موجود دوستوں سے اپنے پاکستانی لوگوں کے کارنامے بیان کررہا ہوں۔ بیرون ممالک والے دوست بول رہے ہیں کہ ملالہ اور ہمارے سیاستدانوں کے اس اقدام سے بیرون ملک ہماری عزت میں بھی بڑا اضافہ ہوا ہے۔ لوگ پاکستان کو اب وہ پاکستان نہیں سمجھ رہے بلکہ ان کو پتا چلا گیا کہ نیا پاکستان بن چکا ہے۔
اورکیا دیکھتا ہوں کہ پاکستان کے سیاستدانوں کی وجہ سے ہندوستان اب خود پاکستان سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ اب ایشیا میں امریکہ ہو یا اسرائیل کوئی بھی ملک پاکستان کی اجازت کے بغیر مداخلت نہیں کرسکتا ۔ تمام مسلم ممالک پاکستان کی بڑے بھائی کی طرح قدر کر رہے ہیں اور پاکستان اپنے چھوٹوں بھائیوں کے دکھ درد میں فوراًساتھ دے رہاہے۔ہرطرف امن و امان قائم ہوگیا۔
میں بڑی دلچسپی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی اور دیکھا تو میں اپنے بیڈ پر اسی پرانے پاکستان میں سویا ہوا تھا۔ ٹی وی چلایا تو وہی دیکھا وہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والا ڈرامہ جاری ہے۔ میں خاموشی سے لیٹا رہا اور اپنے رب سے دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ کاش جو کچھ میں نے دیکھا ایسا حقیقت میں ہوجائے تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں ترقی کرجائے۔