کراچی (جیوڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ لیڈرشپ کمزور ہو تو ایکسپوز ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں قیادت کا فقدان اور گورننس کمزور ہے۔ بیڈ گورننس اور حکمرانوں کی کمزوریوں کی وجہ سے لوگ فوج کے پاس جاتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف پر بڑے پریشر ہیں۔
میرے اوپر بھی بڑے پریشر ہوتے تھے۔ ملک ماحول کے مطابق اپنی پالیسی بناتے ہیں۔ ضیا الحق نے جو کچھ کیا وہ پاکستان کے حق میں کیا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ان کے دور حکومت میں اسرائیل کیساتھ تعلقات حکمت عملی تھی۔ یہ طے تھا کہ اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ ترکی میں اسرائیل کے وزیر خارجہ ساتھ ملاقات کو تسلیم کرتے ہوئے مشرف کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات پہلے سے طے شدہ ایک حکمت عملی کے تحت تھی۔
ہماری حکمت عملی تھی کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک فلسطین کے معاملے پر پیش رفت نہ ہو۔ عمران خان کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کو نوجوان پسند کرتے ہیں لیکن میں انھیں سمجھ دار رہنماء نہیں سمجھتا۔ انہیں صرف رونا دھونا ہی پسند ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں بات کرتے پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم کیساتھ ملاقات ہونی چاہیے لیکن جھکنا نہیں چاہیے۔ نریندر مودی اور نواز شریف چھپ کے باتیں کر رہے تھے کیا کوئی لو افیئر ہو گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کیساتھ اگر کوئی ذاتی بزنس ہے تو نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت کو بتانا چاہیے کہ اگر آپ ہم سے نہ ملے تو ہم مر نہیں جائیں گے۔