اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیل کے وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ وہ چارمسلم ممالک کے ساتھ 2020 ءمیں امریکا کی ثالثی میں ہونے والے امن معاہدوں کی بنیاد پرسعودی عرب اور انڈونیشیا سے بھی سفارتی تعلقات کے قیام کی امید کرتے ہیں لیکن ان دونوں ممالک سے اس طرح کے معاہدوں میں ابھی وقت لگے گا۔
اسلام کے مقدس ترین دو مقامات کے گھرسعودی عرب اور دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی کے حامل انڈونیشیا نے 1967ء کی مشرق اوسط کی جنگ میں اسرائیل کے زیرقبضہ آنے والے علاقوں میں فلسطینیوں کی ریاست کا قیام چاہتے ہیں اور وہ اس شرط کے پورا ہونے کی صورت ہی میں صہیونی ریاست سے معمول کے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔
وزیرخارجہ یائرلاپیڈ نے آرمی ریڈیوسے منگل کے روزنشر ہونے والی گفتگو میں کہا کہ اسرائیل ابراہیم معاہدوں کو متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش سے آگے مزید ممالک تک وسعت دینے پرغورکررہا ہے۔
انھوں نے کہا:’’اگر آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ہم جن اہم ممالک کو دیکھ رہے ہیں،وہ کون سے ہوسکتے ہیں تو انڈونیشیا ان میں سے ایک ہے، یقیناً سعودی عرب ہے لیکن اس طرح کے معاملات کو طے کرنے میں وقت لگتا ہے‘‘۔
لاپیڈ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بعض ’’چھوٹے ممالک‘‘آیندہ دو سال میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا سکتے ہیں لیکن انھوں نے ان ممالک کا نام نہیں لیا ہے۔
دریں اثناء اسرائیلی صدراسحاق ہرتصوغ نے کہا ہے کہ وہ معاہدۂ ابراہیم کے حصے کے طورپراسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والے پہلے ملک متحدہ عرب امارات کا 30 اور31 جنوری کو دورہ کریں گے اور اس کے رہ نماؤں سے ملاقات کریں گے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ سرکاری سطح پر تعلقات کی عدم موجودگی کے باوجود2020ء میں اسرائیل اور یواے ای کے طیاروں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے سے اتفاق کیا تھا۔اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کے ایل آل اسرائیل ایئرلائنز کے طیارے نے گذشتہ ماہ ابوظبی جانے کے لیے سعودی عرب کی فضائی حدودہی سے پرواز کی تھی۔
سعودی عرب اورانڈونیشیا دونوں نے مئی 2021ء میں غزہ میں گیارہ روزہ جنگ کے دوران میں اسرائیل کے فضائی حملوں کی مذمت کی تھی۔اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ میں ڈھائی سو سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے تھے اور ہزاروں مکانات تباہ ہوگئے تھے۔ حماس اوردیگرعسکریت پسند گروہوں کی جانب سے داغے گئے راکٹوں سے اسرائیل میں 13 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔