سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف اور امریکا میں سابق سفیر شہزادہ ترکی الفیصل نے منامہ ڈائیلاگ میں اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس نے عرب سرزمین پر قبضہ کررکھا ہے اور فلسطینیوں کو اذیتی کیمپوں میں ڈال رکھا ہے۔
انھوں نے بحرینی دارالحکومت میں بین الاقوامی ادارہ برائے تزویراتی مطالعات کے زیراہتمام منامہ ڈائیلاگ میں اتوار کے روز اپنی تقریر کے آغاز میں واضح کیا کہ وہ اپنے ذاتی نقطہ نظرکا اظہار کررہے ہیں۔انھوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے اقدامات پر کڑی نکتہ چینی کی اور اس کو مشرقِ اوسط میں آخری مغربی ’’نوآبادی قوت‘‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’اسرائیل نے 1948ء کی جنگ کے بعد فلسطینیوں کوان کے آبائی علاقے سے بے دخل کیا تھا اور 1967ء کی جنگ کے بعد اپنی اس مذموم حرکت کو دُہراتے ہوئے اوّل الذکر جنگ کے بعد آباد رہ جانے والے فلسطینیوں کو بھی ان کی اراضی سے محروم کردیا تھا۔‘‘
شہزادہ ترکی الفیصل نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’اسرائیل نے ہمسایہ عرب سرزمین پر قبضہ کررکھا ہے مگر اس نے ہنوز یہ قبضہ ختم نہیں کیا اور عربوں نے 2002ء کے بعد عرب امن اقدام کے نام سے جو منصوبہ پیش کیا تھا،اس کو پے درپے آنے والی اسرائیلی حکومتوں نے مسترد کردیا۔‘‘
انھوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں اسرائیل کی تعمیر کردہ تقسیم کی دیوارکو ’’علاحدگی کی دیوار‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل نے جس سرزمین کو نوآبادی بنا اورغصب کررکھاہے، وہ وہاں اس کے مکینوں کو لوٹنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔‘‘
سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف نے کہا کہ ’’عالمی عدالت انصاف کے اس علاحدگی کی دیوار کو غیرقانونی قرار دینے کے فیصلے کے باوجود اسرائیل نے سکیورٹی کے بودے الزامات کے تحت فلسطینیوں کو اذیتی کیمپوں میں ڈال رکھا ہے،ان میں نوجوان ، بوڑھے اور مرد وخواتین سبھی شامل ہیں۔اسرائیلیوں کا جب جی چاہتا ہے، وہ فلسطینیوں کے مکانوں کو مسمار کررہے ہیں اور جب وہ چاہتے ہیں، فلسطینیوں کو قتل کردیتے ہیں۔‘‘
شہزادہ ترکی الفیصل نے اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ ’’فلسطینیوں سے متعلق عرب امن اقدام پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔‘‘انھوں نے بحرین اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ معاہدۂ ابراہیم کے نام سے امن معاہدوں کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے اور ان پر بہ انداز دیگر تنقید کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر یہ ابراہیم معاہدے جغرافیے پر مبنی ہیں تو اس نام سے کوئی بھی معاہدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرزمین مکہ مکرمہ کو شامل کیے بغیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ سعودی عرب اپنے اس مؤقف کا کئی مرتبہ اعادہ کرچکا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کوئی امن معاہدہ مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کی صورت ہی میں کیا جاسکتا ہے۔وہ عرب امن اقدام کی غیر متزلزل حمایت کررہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے 2002ء میں پیش کردہ اس امن منصوبہ میں کہا گیا تھا کہ اگر اسرائیل 1967ء کی جنگ میں قبضہ میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کو خالی کردیتا ہے اور ان پر ایک آزاد ریاست کے قیام پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات استوار کیے جاسکتے ہیں۔
شہزادہ ترکی نے اپنی تقریر کے اختتام میں اسرائیلی عوام سے براہ راست مخاطب ہوکر کہا کہ ’’وہ امن کے لیے آگے بڑھے ہوئے ہاتھوں کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائیں اور المیے کا خاتمہ کریں۔اس صورت ہی میں ہم خطے میں چار دارالحکومتوں بیروت ، دمشق ، صنعاء اور بغداد میں موجود دوسری نوآبادی قوتوں کا مل کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔‘‘ان کا اشارہ ایران کی جانب تھا۔
شہزادہ ترکی الفیصل کے فوری بعد اسرائیلی وزیر خارجہ گابی اشکنازی نے منامہ ڈائیلاگ میں گفتگو کی اور یہ کہا کہ’’مجھے سعودی نمایندے کی گفتگو پر افسوس ہوا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’میں اس بات میں یقین نہیں رکھتا ہوں کہ یہ خیالات مشرقِ اوسط میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘