اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے مکمل طور پر سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ یو اے ای ایسا کرنے والا پہلا خلیجی اور تیسرا عرب ملک ہو گا۔
اسرائیل کے قیام کے کئی عرصوں بعد اسرائیل اور خلیجی ممالک کے تعلقات پر جمی برف پگھل رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ایک معاہدے کے تحت اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کا منصوبہ روک دے گا اور اس کے بدلے میں متحدہ عرب امارات اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات بحال کرے گا۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینی ایک الگ ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔
امریکی صدر کی ٹویٹ میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی طرف سے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق آنے والے ہفتوں میں دونوں ملکوں کے وفود ملاقاتیں کریں گے اور ان میں براہ راست پروازوں ، سکیورٹی، ٹیلی مواصلات، توانائی، سیاحت اور صحت کی دیکھ بھال جیسے امور پر مذاکرات کیے جائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹویٹ میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کو امریکا کا ‘عظیم دوست‘ قرار دیتے ہوئے ‘تاریخی امن معاہدے‘ کو ایک بڑا بریک تھرو قرار دیا۔ امریکی صدر نے اس حوالے سے ایک ٹویٹ بھی ہے، جس میں ان ممالک کا ذکر کیا گیا ہے، جو اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر راضی ہیں۔ اسے صدارتی انتخابات سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
وہ انتخابات سے پہلے پہلے افغانستان سے امریکی افواج بھی نکالنا چاہتے ہیں اور مشرق وسطیٰ امن کے لیے ایک نیا منصوبہ بھی شروع کر دیں گے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا چیلنج فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا ہو گا۔
عرب ممالک میں سے اب تک صرف اردن اور مصر ہی وہ دو ممالک تھے، جنہوں نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ باضابطہ تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ ان دو ریاستوں کے برعکس خلیجی عرب ممالک میں سے کسی کے بھی اسرائیل کے ساتھ کوئی باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے اسرائیلی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کیا تھا۔ واشنگٹن میں تعینات اسرائیلی سفیر رون ڈریمر نے معاہدہ طے پانے میں صدر ٹرمپ کے کردار کی تعریف کی۔
فلسطینی اہم رہنماؤں کی جانب سے ابھی تک اس معاہدے کے بارے میں فوری ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
تاہم روئٹرز کے مطابق فلسطین کی سابق مذاکرات کار حنان اشرفی نے اس معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس ‘اسرائیلی قبضے کا صلہ‘ قرار دیا ہے۔
خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کی وجہ سے تہران کی کھلی مخالفت کرنے والے اسرائیل اور ایران کی علاقائی حریف خلیجی ریاستوں کی سیاسی ترجیحات قدرے یکساں ہو چکی ہیں اور حالیہ کچھ عرصے سے ان کے غیر رسمی رابطوں میں گرم جوشی دیکھی گئی ہے جبکہ خلیجی عرب ریاست اسرائیل کے بارے میں اب مصالحت پسندانہ سوچ اپناتی جا رہی ہیں۔
اس کا ایک ثبوت 2018ء میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا عمان کا دورہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ اب ماضی کے مقابلے میں اسرائیلی کھلاڑیوں اور حکام کو خلیجی عرب ریاستوں کے دوروں کی اجازت بھی زیادہ دی جانے لگی ہے۔