رملہ (جیوڈیسک) اسرائیل کی جیلوں میں بند فلسطینی مزاحمت کاروں اور دوسرے قیدیوں نے صہیونی حکام کی چیرہ دستیوں اور سخت پابندیوں کے باوجود تعلیم کا حصول جاری رکھا ہوا ہے اور ان میں سے بعض پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول میں بھی کامیاب رہے ہیں۔
ان ہی فلسطینی قیدیوں میں سے ایک جمال ابو محسن ہیں اور دراصل وہی اسرائیلی جیلوں میں فلسطینیوں کے تعلیم کے حصول کی تحریک میں پیش پیش رہے تھے اور یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم حاصل کرنے والے پہلے فلسطینی قیدی تھے۔
انھیں حال ہی میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امریکا کی ثالثی میں جاری مذاکرات کے دوران طے پائے ایک سمجھوتے کے تحت رہا کیا گیا ہے۔ جمال ابو محسن کو 1991ء میں ایک 76 سالہ اسرائیلی کے قتل میں قصوروار قرار دے کر جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ انھوں نے اس اسرائیلی کو صہیونی فوج کے ہاتھوں پانچ فلسطینیوں کی شہادت کے ردعمل میں ہلاک کیا تھا۔
وہ اب اپنی رہائی کے بعد زندگی کا ایک نیا باب شروع کرنے والے ہیں۔ وہ ان سیکڑوں فلسطینیوں میں شامل تھے جنھوں نے قید وبند کی صعوبتوں کے باوجود تعلیم کا حصول جاری رکھا اور ان میں سے بعض دو دو مضامین میں ماسٹرز ڈگریاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جمال ابو محسن نے مقبوضہ بیت المقدس کی عبرانی یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیم کے پروگرام کے تحت فنون، تاریخ، زبان، اکنامکس کے مضامین میں بیچلر ڈگری حاصل کی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے صہیونی تحریک کا صہیونی تناظر میں مطالعہ کیا ہے اور وہ اب اس پر اپنا مقالہ لکھیں گے۔ فلسطینی قیدیوں میں سب سے نمایاں مزاحمتی تحریک کے لیڈر مروان برغوثی ہیں۔
انھیں بارہ سال قبل جیل میں ڈالا گیا تھا اور چار اسرائیلیوں کے قتل کے الزام میں پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انھوں نے پہلے ماسٹرز ڈگری حاصل کی تھی اور 2010ء میں انھیں ایک مصری جامعہ نے ڈاکٹریٹ آف فلاسفی کی ڈگری عطا کی تھی جس کے بعد وہ جیل میں جامعہ کی سطح کے کورس پڑھانے کے اہل ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ اسرائِیل نے 1991ء میں فلسطینی قیدیوں کی چودہ روز بھوک ہڑتال کے بعد انھیں یونیورسٹی کی سطح کے کورسز پڑھنے کی اجازت دی تھی۔ اس وقت اسرائیلی جیلوں میں پانچ ہزار کے لگ بھگ فلسطینی قید ہیں اور ان میں سیکڑوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ڈگری سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اسرائیل نے جیلوں میں قید فلسطینیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی تو آزادی دی ہے لیکن اس کے ساتھ بہت سی پابندیاں بھی ان پرعائد کی ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ وہ عبرانی زبان ہی میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں تاکہ ان کے زیر مطالعہ مواد کی نگرانی کی جا سکے۔
اس کے علاوہ ان پر خطرناک مضامین فزکس، کیمسٹری اور سیاسی قومیت پڑھنے پر بھی پابندی عائد ہے۔ 2011ء میں اسرائیل نے جیلوں میں قید فلسطینیوں پر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور یہ اقدام غزہ میں قید اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے فلسطینیوں پر دبائو ڈالنے کی غرض سے کیا گیا تھا۔
گیلاد شالیت کو اسی سال فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد بھی اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں پر تعلیم کے حصول پر عائد پابندی برقرار رکھی ہوئی ہے مگر فلسطینی قیدیوں نے اپنے شوق اور لگن کی وجہ سے تعلیم جاری رکھی ہوئی ہے۔