اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی فلسطینی تنازعے نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والی خلیجی ریاستوں کو ایک مشکل اور پریشان کن صورت حال میں مبتلا کر دیا ہے۔
ابراہم ایکارڈ نامی معاہدہ خطے میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کے اعتبار سے گیم چینجر قرار دیا جا رہا تھا۔ تاہم اسرائیلی فلسطینی تنازعے نے اس معاہدے پر دباؤ میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔ غزہ کے خلاف عسکری کارروائیوں پر اسرائیل کے نئے عرب اتحادیوں نے بھی تنقید کی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی کی یہ تازہ لہر ماہ رمضان کے خاتمے اور عید کے موقع پر دیکھی گئی ہے۔
ایک برس سے بھی کم عرصے قبل متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے متعلق معاہدے کیے تھے، تاہم اب ان تمام ممالک کی جانب سے بھی اسرائیلی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کرائسز گروپ نامی تھنک ٹینک سے وابستہ الہام فاخرو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ”یہ بیانات اصل میں عوامی ردعمل کے تناظر میں ہیں، جو ان ممالک کو مقامی و علاقائی سطح پر درپیش ہے۔ کیوں کہ عربوں کی بڑی اکثریت فلسطینیوں کے حق میں ہے۔‘‘
ابراہم ایکارڈ کے ذریعے عرب ممالک میں دہائیوں پر مبنی اسرائیل مخالف جذبات کو برطرف کر دیا گیا تھا تاہم فلسطینی رہنماؤں نے اسے ‘غداری‘ قرار دیتے ہوئے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اب شاید ان کے لیے اپنی ایک آزاد ریاست کے حصول کی کوشش متاثر ہو۔
بحرین میں روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر بھی مختلف عرب ممالک کے صارفین ایسی تصاویر پوسٹ کر رہے ہیں، جن میں فلسطینی پرچم دکھائی دے رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں بھی سوشل میڈیا پر سخت پابندیوں کے باوجود صارفین اسرائیلی فورسز کی کارروائیوں کی سخت مذمت کر رہے ہیں اور وہ ایسی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کر رہے ہیں جن میں اسرائیلی فورسز فلسطینیوں کے خلاف متحرک دکھائی دے رہی ہیں۔
دوسری جانب عوام کے برعکس متحدہ عرب امارات میں حکومت کے قریبی حلقے حماس کی جانب سے راکٹ داغنے کی ویڈیوز اور تصاویر جاری کرتے ہوئے اسے ‘دہشت گرد‘ قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت ‘سیاسی اسلام‘ کے لیے ‘صفر برداشت‘ کی پالیسی کا اعلان کرتی آئی ہے۔