پاکستان کی تاریخ اٹھا کردیکھ لیجئے ہر روز ایک نیا مسئلہ، ہر سال نیا بحران۔۔ ۔۔ قدم قدم پر نیا امتحان۔۔۔آئے روز درپیش سنگین معاملات، سلگ سلگ کر جینا۔۔ سسک سسک کر مرنا ۔۔۔ ہر وقت خوف۔۔۔ ہر لمحہ اضطراب عام پاکستانی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کیا واقعی زندگی اسی کو کہتے ہیں؟ وہ بھی حکمران تھے جن کا کہنا تھا۔۔
دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے قیامت کے روز اللہ کے حضور عمر جواب دہ ہو گا” اور ایک آج کے حکمران اور گلیاں ہو جان سنجھیاں وچ مرزا یار پھرے سیاستدان ہیں جن کی سیاست ہے کہا جا سکتا ہے وہ ماضی کے قصے، کہانیاں ہیں بے شک وہ کسی کے ایک آنسوپر ہزاروں دل تڑپتے ہیں ماضی ہے لیکن کسی کا عمر بھر کا رونا یونہی بے کار جاتا ہے۔۔ شاندارروایات کا حامل کا محور
بچپن میں یہ شعر پڑھا جو آج بھی بہت متاثر کرتا ہے انسانی رویے، سیاست ،طبقاتی کش مکش یا پھر عاشقی کے تناظر میں اسے بہترین مثال کہا جا سکتاہے ۔۔۔یہ اس لئے بھی یادآیا کہ ان دنوں عمران خان ‘شیخ رشید اور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری ان دنوںمیاں نوازشریف حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے میدان میں خم ٹھوک کر اترے ہوئے ہیں جماعت اسلامی کی تو پہلے ہی تحریک ِ انصاف سے دوستی تھی لیکن مسلم لیگ کے چوہدری برادان نے حالات سے بروقت خوب فائدہ اٹھاکر میاں نواز شریف کے خلاف کئی سال کا غبار نکالنے کی کوشش کی ہے۔
لگتا ہے موجودہ حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں البتہ کئی سیاستدانوںکی باسی کڑی میں ابال آسکتاہے ماضی میںکم و بیش40-30 سال قبل احتجاجی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے تھے جب بھی اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کرتی چھوٹی بڑی درجنوں جماعتیں مرحوم و مغفور نوابزادہ نصراللہ خان کے گرد جمع ہو جاتیں جن سیاسی جماعتوں کو تانگے کی سواریاں بھی میسر نہیں تھیں ان کی چال ڈھال اور بیان بازی دیدنی ہوتی۔
Nawabzada Nasrullah Khan
پریس کانفرنس یا احتجاج کی کوریج دیکھ کر کئی چھوٹی جماعتوں کے سربراہ اخبارات میں نوابزادہ نصراللہ خان کی بڑی بڑی تصویریں دیکھ کر آہیں بھرتے اور اپنا نام تک نہ چھپنے پر دل ہی دل میں کسی کے ایک آنسوپر ہزاروں دل تڑپتے ہیں کسی کا عمر بھر کا رونا یونہی بے کار جاتا ہے۔
کا شعر دہراتے رہتے ۔بلاشبہ شہرت ہر کسی کا نصیب نہیں بنتی کامرانی کیلئے انسانی رویے۔۔۔سیاسی حالات،معاشرتی ماحول،اخلاقی اقدار اورمعاملات بھی شدید اثرات مرتب کرتے ہیںلیکن سیاست تو ہے ہی۔ قدم قدم پر نیا امتحان ۔۔اپوزیشن کیلئے ہر وقت گرفتاری کا خوف۔۔۔ ہر لمحہ اضطراب۔۔۔پاکستانی سیاست کی نصف صدی پر غورکیا جائے تو یہ احساس گہرا ہوتا چلا جائے گا کہ اس ملک میں آج تک جمہوری انداز سے کوئی سیاستدان بناہے نہ اقتدار میں آیا سب کے سرپرست ِ اعلیٰ فوجی ڈکٹیٹر تھے اس حقیقت کو کوئی جھٹلانا بھی چاہے تو نہیں جھٹلاسکتایہی وجہ ہے کہ کسی حکمران نے اپنے دل میں عوام کا درد محسوس نہیں کیا”شارٹ کٹ” کے فارمولے پر پیرا شوٹ کے ذریعے نازل ہونے والے عوام کا دکھ کیا جانیں۔۔
انہیں کیا معلوم مہنگائی کس عفریت کا نام ہے۔۔بھوک سے بلکتے بچوںکو دیکھکر اپنا گردہ بیچنے والوںپر کیا بیتتی ہے؟۔۔۔ تھانے کچہری اور سرکاری اداروں میں عوام کوکتنی تذلیل برداشت کرنا پڑتی ہے۔۔۔ اب وہ حکمران کہاں سے لائیں جس کا کہنا تھا” دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے قیامت کے روز اللہ کے حضور عمر جواب دہ ہوگا” عمران خان ‘شیخ رشید چوہدری پرویزا لہی،سراج الحق اور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کے احتجاجی پروگرام اپنی جگہ پر حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے یہ کام بھی ضروری ہیں لیکن عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ناگزیرہے پاکستان کی سرزمین صحیح معانوںمیں وہ ماحول مانگتی ہے جو قومی امنگوں کا ترجمان ہو آج عوام میں تحریک ِ پاکستان کا جذبہ بیدارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس پاک وطن میں ایسا معاشرہ پروان چڑھ سکے جس میں لڑائی نہ ہو،شرانگیزی نہ ہو۔
دہشت گردی نہ ہو، امن ہو، سکون ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے ہم وطنوںکو عزت ،سکون اور خوشحالی سے مالا مال کردے ایسا ماحول بن جائے کہ خودی کو کربلند اتنا کہ ہر تقدیرسے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔
اصل میں نئی نسلوںکے مستقبل کو تابناک بنانے کچھ پلاننگ کرنا ہوگی ،بہتری کیلئے کوشش کرتے رہنا ہی زندگی کی علامت ہے جب تک ۔۔ہر روز ایک نیا مسئلہ،ہر سال نیا بحران۔۔ ۔۔ قدم قدم پر نیا امتحان ۔۔۔آئے روز درپیش سنگین معاملات ، سلگ سلگ کر جینا۔۔ سسک سسک کر مرنا ۔۔۔ ہر وقت خوف۔۔۔ ہر لمحہ اضطراب کا سلسلہ ختم ہو جائے گا صحیح معانوں میں اس روزنئے پاکستان کی روشن صبح کا آغاز ہو گا۔ آئیے کوشش کریں۔۔ کوشش کرکے تو دیکھیں۔