مسئلہ میراث کی غلط تفہیم و تشریح

Issue Inheritance

Issue Inheritance

تحریر: ڈاکٹر خالد فوا الازہری
دین میں متشابہات کے ذریعہ دراڑ ڈالنے والے اور اس کی غلط تعبیر و تشریح پیش کرنے والوں کے دلوں میں بیماری اور ان کی عقلوں میں خلل ہے۔ ایسے احباب اس جستجو میں رہتے ہیں کہ مختلف فیہ یا متشابہ مسائل کو بنیاد بنا کر مسلم معاشرے میں تشکیک کی فضا کو ابھارا جاسکے۔ انہی مسائل میں سے مسئلہ میراث کا ہے جس کو بنیاد بنا کر افراط و تفریط کے عمل سے اسلام کے حکم میراث کو مشتبہ فیہ بنانے کا عمل جاری ہے۔ بعض لوگ قرآن باک کی آیت ” للذکر مثل حظ الانسیین ”کہ مرد کے لیے میراث میں دوگنا حصہ ہے بہ نسبت عورت کے اور اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مرد کو عورت پر فوقیت و تمیز حاصل ہے۔ اور بعض لوگ جن کے اذہان میں خلل و بیماری وہ اسلام کے خلاف فتنہ پیدا کرنے کے لیے اس مسئلہ کی غلط تفہیم کے راستے طعن و تشنیع کا دروازہ کھولتے ہیںاور یہ صدا لگاتے نظر آتے ہیں کہ اسلام عورت پر ظلم کرنے کا حکم دیتاہے۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان نہیں کیا ترکہ چھوڑنے والے اور میراث کے حقداروں کے بیان میں مرد کو فضیلت کاذکر نہیں کیا بلکہ اللہ نے یہ حکم صرف اولاد کے بارے میں وصیت کے طور پر بیان کیا گیا۔ اس امر سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ حکم عام و ثابت نہیں ہے تمام حالتوں میں بلکہ یہ حکم متعین حالات کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ مسئلہ واقعہ یہ ہے کہ مسئلہ میراث کا بیان کمال اہمیت و نقص مرد و عورت میں جانچنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ وصیت و حکم ذمہ داری و سربراہی کے سبب ہے۔ اس سلسلہ میں تین طرح کے اسباب ہیں :۔اول :ترکہ چھوڑنے والے کے ساتھ قرابت۔برابر ہے کہ مرد ہے یا عورت جس قدر قرابت تعلق قریب ہوگا میراث میں حصہ اسی قدر زیادہ ہو گا اور جس قدر تعلق کم و بعید ہوگا اسی قدر میراث میں حصہ بھی کم ہوجائے گا۔ ثانی: حیثیت وارثین۔

اسی طرح تقسیم میراث میں یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ جس کی عمر کم ہو اور اس کے لیے زمانہ مستقبل میں عمل کا میدان زیادہ طویل ہو اس کو میراث میں زیادہ حق دیاجائے گا بہ نسبت بزرگ و ضعیف کے کیوں کہ وہ اپنی زندگی کازیادہ حصہ مکمل کرچکے ہیں جبکہ ان کی کفالت کی ذمہ داری بھی نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے ،اس امر میں بھی مرد و عورت کی تقسیم کو روا نہیں رکھا گیا۔مثلاًفوت ہونے والے کی بیٹی اپنی ماں سے زیادہ میراث وصول کرے گی جبکہ دونوں کی جنس ایک ہے بلکہ اگر لڑکی اور باپ وارث ہوں تو لڑکی کو زیادہ حق میراث ملے گا اگر چہ وہ دودھ پینے والی یا کم عمر ہی کیوں نہ ہواگرچہ اس نے اپنے والد کا چہرہ بھی نہ دیکھا ہو۔۔۔۔باپ مال کو جمع کرنے کا سبب و ذریعہ ہونے کے باوجود تب بھی بیٹی کو حق زیادہ ملے گا اس کی مستقبل کی زندگی کو ملاحظہ کرنے کے سبب۔اسی طرح بیٹا باپ سے زیادہ ترکہ وصول کرے گا جبکہ دونوں ایک ہی جنس سے ہیں ۔اس تفصیل سے ثابت ہوتاہے کہ میراث کی تقسیم میں جنسیت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔

Islam

Islam

ثالث: تقسیم میراث میں اسلام نے اس اہم اسبب مسئولیت و کفالت کی ذمہ داری کو پیش نظر رکھا ہے کہ خاندان کی مالی و معاشی کفالت کون کرے گا۔یہ ذمہ داری جو بھی سرانجام دے گا اس کو میراث میں زیادہ حصہ ملے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت……اس درجہ بندی و تفاوت میں عورت پر نہ تو ظلم ہے اور نہ ہی اس کے حق کی حق تلفی کی گئی یا عدم انصاف کا معاملہ روا رکھاگیا۔اس امر سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں برابری کے عمل کو میراث میں جاری رکھا ہے اور جہاں کہیں تفاوت و فرق نظر آتاہے تو وہ گھر کی کفالت و ذمہ داری کے باعث ہے ۔اسی وجہ سے قرآن کریم نے میراث کے بیان میں عام حکم جاری نہیں کیاکہ تمام میراث وصول کرنے والوں میں مرد و عورت کی درجہ بندی کرو بلکہ یہ نصیحت صرف اولاد میں میراث تقسیم کرنے کے بیان میں ہے کہ مرد کو عورت کی نسبت دوحصے دیے جائیں۔

بھائی اور بہن میں میراث کی تقسیم کرتے وقت جو درجہ بندی و تفاوت موجود ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بھائی نے خود شادی کرنی ہوتی ہے اور سارے گھر کا بشمول بہن کے نان نفقہ کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے جب کہ بہن شادی کے بعد اپنے خاوند کی کفالت میں آجاتی ہے اور جو مال میراث میں اس کو دیا گیا وہ خود جب تک نہ چاہے کہ اسے خرچ کرے اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتاگویا کہ اسلام نے جنس عورت کو اس کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے میراث کا حقدار اس لیے ٹھہرایا ہے کہ وہ اپنی خود کفیل و مالک ہو۔اس سارے عمل میں بھائی پر بہن کا نان نفقہ اس کی شادی تک واجب ہے۔

Extremist

Extremist

امر واقعہ یہ ہے کہ میراث کی تقسیم کے اس فلسفہ تفاوت میں انتہا پسند مذہبی و سیکولر ذہنیت کے لوگ افراط و تفریط کے عامل ہیں۔ مذہبی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمیز عورت پر مرد کی فضیلت کو ثابت کرتی ہے ،متشدد لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارابحیثت مردپرورش پانا باعث عزت ہے اس راستے سے وہ عورت کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں۔دوسری طرف سیکولر طبقے اسلام میں متشابہہ امور کی کھوج میں رہتے ہیں تاکہ اسلام کی حقیقت کو مسخ کرسکیںوہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت پر ظلم کیا ہے اور اس پر مرد کو فوقیت دیتاہے۔ مسئلہ میراث پر گہری نظر رکھنے والا جن اہم امور پر بحث کرتاہے وہ اجمالاً حسب ذیل ہیں:۔ ١۔چار صورتیں ایسی ہیں کہ عورت میراث مرد سے نصف اور آدھا حصہ وصول کرتی ہے۔ ٢۔چارصوریں ایسی ہیں کہ عورت مرد کے برابر میراث وصول کرتی ہے۔ ٣۔دس صورتیں ایسی ہیں کہ جس میں عورت مرد سے زیادہ حصہ میراث وصول کرتی ہے۔ ٤۔ایسی صورتیں بھی ہیں کہ عورت مرد سے زیادہ میراث کا حق وصول کرتی ہے ،تیس سے زائد حالتوں میں عورت مرد کے برابر یا اس سے زیادہ حصہ وصول کرتی ہے

ایسی صورتیں بھی ہیں کہ عورت میراث وصول کرتی ہے اور مرد اس سے محروم رہتاہے،جبکہ صرف چار حالتوں میں عورت مرد کے مقابل نصف حصہ وصول کرتی ہے۔ان امور کی تفصیل کتب میراث میں دیکھی جاسکتی ہے۔مسائل میراث پر نظر عمیق رکھنے والا اس امر کو بھی جانتاہے جو سورة نساء کے آخر میں بیان ہے کہ ماں کی جانب سے بہن بھائی میراث میں برابر حصہ وصول کریں گے کیوں کہ وہ اس کا باپ کی جانب سے بھائی نہیں ہے اور اس پر بہن کانفقہ بھی لازم نہیں ہے ۔ میراث کی تقسیم میں عورت مظلوم و مجبور و مقہور نہیں بلکہ مرد یہ کہہ سکتاہے کہ اس کے ساتھ زیادتی یا ظلم کا معاملہ ہواہے کہ جب اولاد کے فوت ہونے پر عورت کو باپ سے زیادہ حق میراث دیا جاتاہے جبکہ ان کا کوئی بچہ نہ ہو تو ماں تیسرا اور باپ چھٹاحصہ وصول کرے گا (جو کہ کم ہے عورت کے حصہ سے)۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس متشابہہ مسئلہ میراث جس کے اہتمام کا مقصداسلام پر طعن و تشنیع اوراتہامات کا دروازہ کھولنا ہے ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں عورت کی تحقیر و تذلیل یا اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا عمل روا نہیں رکھا گیا جو لوگ اس امر کے مدعی ہیں وہ امر واقعہ سے کوسوں دور ہیں۔

Dr Khalid Fawad

Dr Khalid Fawad

تحریر: ڈاکٹر خالد فوا الازہری
khalidfuaad313@gmail.com
03135265617