مسئلہ کشمیر اور نام نہاد عالمی طاقتیں

Kashmir Violence

Kashmir Violence

تحریر : سجاد علی شاکر
وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریائوں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔ تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو کشمیرپاکستان کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن سامراجی طاقتوں نے ایک منظم سازش کے تحت پاکستان کی اس ریاست کو متنازعہ بنا دیا۔ کشمیر کا سب سے بڑا خطہ جو کہ مسلم آبادی پر مشتمل ہے ہے جبکہ ہندووں بنیا ء ایک چال کے تحت ہندوں ازم کو فرو غ دینے میں بضد ہے۔ وادی کشمیر کی کل آبادی 4ملین بتائی جاتی ہے جس میں مسلمان 95فیصد اور ہندو 4فیصد ہیں۔ کشمیر پر ہندو ستان نے زبردستی قبضہ کررکھا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں 70فیصد آبادی مسلمانوں کی بتائی جاتی ہے۔ بقیہ آبادی بدھ ، ہندو، سکھ اور دیگر پر مشتمل ہے۔ اس وقت خطہ کشمیر تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور مقبوضہ کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ)، اور چین شمال مشرقی علاقوں (اسکائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔

مقبو ضہ کشمیر’ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کی اہم وجہ ہے۔ کشمیر پاکستان کی مسلم ریاست اور پاکستان کا حصہ ہے جسے ہندو بنیے نے چال بازی کے ساتھ اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں جوہری طاقتیں ہیں جس کے باعث مسئلہ کشمیر دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ، 1965ء کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر برصغیر کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے جس طرح حیدر آباد، جونا گڑھ اور مناوا درجیسے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا اسی طرح قیام پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد 29اکتوبر1947کو انڈیا نے کشمیر پر لشکر کشی کی اور ریاست ہائے جموں کشمیر پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔

بانی پاکستان محمد علی جناح نے پاکستانی افواج کو بھارتی لشکر کشی کا جواب دینے کا حکم دیا تو پاکستانی فوج کے انگریز کمانڈر جنرل ڈگلس گریسی نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔بعد ازاں 1948ء میں پاکستانی افواج اور قبائلی مجاہدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت یکم جنوری 1948ء کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیاجس پر سلامتی کونسل نے 12اگست 1948ء اور 5مئی 1949ء کو دو قراردادیںپاس کیں کہ جنگ بند کرکے دونوں حکومتیں کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں تاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا انتظام کیا جائے۔

Security Council

Security Council

سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں جنگ بندی ہوگئی۔ اس کے بعدپاکستان کی تما م تر کوششوں کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کو ٹالتا رہا اور اقوام متحدہ جیسا حقوق انسانی کا علمبردار ادارہ جو مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو،مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں ، شخصیات واداروں پر پابندیوں کا مسئلہ ہو تو دنوں میں اپنی قراردادوں و فیصلوں پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اس نے کبھی بھارت پر اس طرح دبائو نہیں ڈالا جس طرح اسے ڈالنا چاہئے تھا۔یہ نام نہاد عالمی طاقتوں اور اداروں کے بھارت کی طرف جھکائو کا نتیجہ تھا کہ انڈیانے ہمیشہ اس مسئلہ پر روایتی ٹال مٹول سے کام لیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا’ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا

کشمیر میں استصواب رائے کے وعدہ سے انڈیا صاف طور پر مکر گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کردیا۔اس وقت سے لیکر آج تک بھارت ہٹ دھرمی کا یہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اور مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کیلئے تیا رنہیں ہے ۔ بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں بربریت کامظاہرہ کرتے ہوئے حزب المجاہدین کے قائد برہان الدین وانی کو قتل کیا جس کے ردعمل میں کشمیر کے عوام سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے۔

بھارتی افواج نے نہتے عوام پر گولیوں کی بوچھاڑ کرکے سینکڑوںکشمیریوں کو ہلاک کردیا جبکہ ہزاروںکشمیری زخمی ہوئے۔ کشمیری لیڈروں سید علی گیلانی، میر واعظ، عمر فاروق، یاسین محمد ملک کو نظر بند کیا گیا ہے شہروں میں کرفیو نافذ ہے جبکہ حریت پسند مودی کے پتلے اور بھارت کے پرچم جلارہے ہیں۔اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق پاکستان تنازعہ کشمیر کا فریق ہے۔ پاکستان کشمیر کی صورتحال سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کا فرض ہے کہ وہ کشمیر کے حریت پسندوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کرے۔

America

America

امریکہ اور مغربی ممالک پاکستان پر دہشت گردی کے الزام لگاتے رہتے ہیں مگر بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ وزیراعظم نے بھی کشمیر کی تشویشناک صورتحال پر غور کرنے کیلئے کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے جس جوش و جذبے اور عزم کے ساتھ کشمیریوں کا مقدمہ لڑا وہ جذبہ آج کے حکمرانوں میں بھی ویسا ہی جذبہ ہونا چاہئیے ۔آج بھی کشمیری مسلمانوں کی اہل پاکستان سے محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں۔ وہ اپنی گھڑیاں پاکستانی وقت کے مطابق رکھنا پسند کرتے ہیں، عیدین کا مسئلہ ہو تو ان کی نگاہیں پاکستانی روئیت ہلال کمیٹی کے اعلان کی طرف ہوتی ہیں۔

یوم پاکستان پر کشمیر کی گلیوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اور پاک بھارت کرکٹ میچ ہو تو ان کی تمام تر محبت اور ہمدردیاں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں۔بھارت نے اتنے برسوں میں ہر ممکن طریقہ سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے اور کچلنے کی کوشش کی ہے مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھارتی فوج نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا ،ہزاروں کشمیری مائوں بہنوںاور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی،بچوں و بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں کشمیری نوجوان ابھی تک بھارتی جیلوں میں پڑ ے ہیں۔جگہ جگہ سے اجتماعی قبریں برآمد ہو رہی ہیں۔

کشمیر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو یا وہ کسی اور انداز میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بنا ہو لیکن اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیری قو م آ ج تک عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر بھارت کے ظلم و تشدد کو برداشت کر رہی ہے مگر ان کی بھارت سے نفرت کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی۔ ہم ہر سال5 فروری کو کشمیری مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیںاے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے ملک پاکستان اور کشمیرسمیت پْورے عالمِ اسلام میںامن سکون عطاء فرما آمین ثم آمین یارب العالمین۔

Sajjad Ali Shakir

Sajjad Ali Shakir

تحریر : سجاد علی شاکر
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480