تحریر : سید توقیر زیدی اگر یہ کہا جائے کہ کشمیر دنیا کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک ہے تو یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا۔یہ وہی وادی ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے جنت نظیر کا لفظ استعمال کیا۔لیکن بدقسمتی سے اس خوبصورت وادی کے بدن کو بھارت اپنی ریاستی دہشتگردی کے ذریعے نوچ رہا ہے۔اور اسکی بربریت کا یہ سلسلہ پچھلے ستر سال سے جاری و ساری ہے۔ بھارت کی اس بربریت کے نتیجے میں آج تک کم و بیش ایک لاکھ کشمیری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اور بھارتی بھیڑیے وہاں کشمیر میں عورتوں کی بے حرمتی کرنے سے بھی گریزاں نہیں۔کشمیری عوام اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ،مظالم کے پہاڑ سہتے چلے آرہے ہیں۔اور پھر پوری دنیا کی مجرمانہ خاموشی بھی کشمیری عوام کے زخموں پر نمک پاشی سے کچھ کم نہیں۔یہ مسئلہ ہے کیا؟ اسکو جاننے کے لیئے تھوڑا پس منظر کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع یہ ریاست جس کا کل رقبہ 69547مربع میل ہے۔
1947ء کے بعد ریاست جموں کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔اس وقت بھارت 39102مربع میل پر قابض ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر کہلاتا ہے۔اس کا دارلحکومت سری نگر ہے بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو کہ25000مربع میل رقبہ پر محیط ہے۔اس کا دارالحکومت مظفرآباد ہے۔ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔جس میں تقریباً25لاکھ آزاد کشمیر میں ہیں۔ہندو راجائوں نے طویل عرصہ تک اس علاقہ میں حکومت کی۔1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر کو 75لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔کشمیری آبادی کا اسی فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ہندو راجہ نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنائے رکھا۔تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف چھبیس اکتوبر 1947?ء کو بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اعلان کر دیا۔اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا آغاز ہو گیا۔
سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949?ء کو جنگ بندی ہو گئی۔سلامتی کونسل نے 1948ء میں منظور شدہ قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور رائے شماری کروانے کے لیئے کہا۔بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کر لیا مگر بعد میں اس سے منحرف ہو گیا۔اس دوران پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر کوئی خاطر خواہ پیشرفت نا ہوسکی۔البتہ 1957ء میں بھارت نے کشمیری عوام کو ایک رسمی سی الگ شناخت دینے کے لیے ایک قانون پاس کیا۔جس کے مطابق بھارتی قانون کی دفعہ370کے تحت کوئی بھی بھارتی شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکے گا جو کہ کشمیری نہ ہو۔اور یہ سب کشمیریوں کی تحریک آزادی کے دبائو کا ہی نتیجہ تھا۔
Burhan Wani
پاکستان سفارتی سطح پر اس مسئلہ کو ہر دور میں اجاگر کرتا رہا مگر کچھ حاصل نہ ہو سکا۔اسی ضمن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں بھی ہو چکیں۔جس کے نتیجے میں کشمیر تو آزاد نہ ہو سکا مگر مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے،جو آج بنگلہ دیش کی صورت میں پاکستان کے ساتھ دشمن جیسا برتائو کیے ہوئے ہے۔1972ء میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جو شملہ معاہدہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔دراصل شملہ معاہدہ اس معاہدے کی یاد دہانی تھی جو تاشقند معاہدہ صدر ایوب کے دور میں ہوا تھا۔اس معاہدے کے بعد دونوں اطراف سے ایک بار پھر سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر اتفاق ہوا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔اس طرح پاکستان نے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے جنگ لڑی خواہ وہ سفارتی محاظ ہو یا پھر جنگ۔۔کیونکہ ظلم تو پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔
آج ایک بار پھر بھارت کشمیریوں کے اوپر چڑھ دوڑا ہے۔اور ظلم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے مگر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔اسی ظلم کی بھینٹ برہان مظفر وانی شہید کو چڑھا دیا گیا۔جس کے خون نے تحریک آزادی کو جلا بخشی ہے اور اب یہ تحریک کشمیر کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک پھیل چکی ہے۔۔ اسوقت پوری دنیا کا میڈیا جو بھارتی مظالم کی داستانیں سنا رہا ہے اس کے مطابق چھ دنوں میں پچاس سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں اور کم و بیش دو سے تین ہزار لوگ شدید زخمی ہیں۔اور سینکڑوں ایسے ہیں جن کی بینائی چلی گئی ہے اور بہت سے افراد تشویش ناک حالت میں ہیں۔کیونکہ کشمیریوں کی جنگ ہماری بقاء کی جنگ ہے۔
یہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ کشمیریوں کا حق ان کو نہ مل جائے۔کیونکہ اب بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اس لیے طبعی جنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مگر ہمیں یہ جنگ نظریاتی سرحدوں پر لڑنی ہے۔جس کے لیے کسی بھی ملک کا میڈیا سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ستر سال سے یہ لوگ ظلم و ستم برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔امریکہ پوری دنیا میں امن کا ٹھیکیدار بنا پھرتا ہے کیا اس کو یہ بربریت نظر نہیں آرہی؟اور اگر سب کچھ جانتے ہوئے خاموش ہیں تو پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔اور کشمیریوں کے حق کے لیے ساری دنیا میں بہتر طریقے سے اپنا مدعا بیان کرناپڑے گا۔