تحریر: نعیم الاسلام چودھری 20 لاکھ کے ڈاکے، ڈاکوئوں نے دو شہری مار ڈالے، لاہور میں مختلف وارداتوں میں لاکھوں روپے مالیت کی نقدی، طلائی زیورات، موبائل فون، گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور دیگر سامان لوٹ لیا گیا…یہ محض ایک اخبار کی 7مارچ 2015ء کی جرائم کی خبر ہے ، اس دن قوم کے محافظ حکام بالا کے حکم پر عوام کو جرائم پیشہ عناصر کے رحم کرم پر چھوڑ کر جشن بہاراںو کیٹل شوز کی حفاظت میں مصروف تھے اور چور ڈاکو لٹیرے پورے شہر میں دندناتے پھر رہے تھے ۔یہ نتیجہ نکلا سارے پنجاب کی پولیس نفری کو جشن بہاراںو کیٹل شوز پر لگانے کا ،کہ پیچھے سے پورے صوبے میں ڈاکوئوں نے بھی خوب اندھا دھند شہریوں کے جان مال کے ساتھ جشن بہاراں منائی
ان دنوں ڈاکوئوں کا “آتش عشق “پر زورکچھ معمول سے زیادہ تھا وگرنہ سارا سال ہی شہریوں کی “عزت افزائی” جاری رہتی ہے راقم الحروف نے بھی گذشتہ روز 3ڈاکوؤں کے ہاتھوں 18ہزار روپے کی قربانی دے کر جشن بہاراں کو خوب “انجوائے” کیا۔ “تھرپارکر یا موہنجوداڑو یا سندھ” کے کسی دور دراز دیہی علاقے میں نہیں تین مرکزی تھانوں و سول لائنز کی ناک تلے شہر کے مرکزی پررونق مقام چوبرجی پر راقم الحروف سے تین ڈاکوئوں نے گن پوائنٹ پر نقدی، موبائل ،سمز اور انتہائی قیمتی دستاویزات چھین لیں اور جب ایف آئی آر کے اندراج کے لئے رجوع کیا گیا تو اس سے بھی انکار کر دیا گیا کہ پورے صوبہ کی پویس نفری “جشن بہاراں” میں مصروف ہے۔
میر ا مسئلہ ہو یا کسی کا ،کوئی صحافی لٹے یا کوئی شہری ،مگر سوال یہ ہے کہ اشرافیہ پہلے ہی اقتدار کے نشے میں بدمست ہے تو ایسی صورتحال میں عوام کی پرواہ کس کو ہے؟پہلے توبدامنی میں صرف کراچی بدنام تھا اب ہر شہر کراچی بن چکا ہے۔دہشت گردی کے عفریت کے ساتھ پاکستان کے عوام کو امن و امان کی دن بدن تشویش ناک صورتحال نے انتہائی خوفزدہ اور پریشان کر کے رکھ دیا ہے ، چوری ڈکیتی آبروریزی کے واقعات سے آئے دن اضافے سے ملک کے چپے چپے بربریت کا ننگا ناچ ہے۔ عوام کے ٹیکس سے اربوں کے فنڈ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتری کے لئے صرف کئے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو بدقسمتی سے ان کا نتیجہ عملا محض صفر ہی ہے۔
ظالم دہشت گردوں سے سکول کے معصوم بچے اور مسجدوں کے نمازی تک محفوظ نہیں تو دوسری طرف پولیس انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کچھ کالی بھیڑوں کی ملی بھگت سے جرائم پیشہ عناصر نے عوام پر ظلم و زیادتی کی انتہاکردی ہے ، فرسودہ عدالتی نظام سے بھی شاذ نادر ہی کسی شہری کو بروقت انصاف ملتا ہے۔
Terrorism
دہشت گردی اور امن امان کی دگرگوں صورتحال نے کاروباری طبقے ، بیرونی انوسٹمنٹ اور پاکستانی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ،کوئی حکومت آئے یا جائے لیکن” اصل میں یہی جرائم پیشہ عناصر پاکستان کے حقیقی حکمران ہیں” جو 68سال سے پاکستان پر حکومت کر رہے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یا تو “ہر حکمران اٹھائی گیر ہے یا اٹھائی گیر حاکم “ہے۔ حکمرانوں کو مراتھن، لہو و لعب ،میلوں، بیرونی سیاحتی دوروں، جشن بہاراں اور کیٹل شوز سے فرصت ہو تو عوام کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیں۔عام ہو یا خاص ،ہر شہری غیر محفوظ ہے ، ایک انچ جگہ بھی اٹھائی گیروں کی دست برد سے محفوظ نہیںلیکن حکمرانوں کا وہی حال ہے کہ” روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا”کے مصداق انتظامی طبقہ و اشرافیہ کے ذمہ دار افراد اور حکمرانوں کو،جشن بہاراں، اور جیبیں بھرنے سے فرصت ملے تو وہ عوام کے” جشن غریباں” مسائل کی طرف توجہ دیں اور ان کو علم ہو کہ جرائم پیشہ عناصر نے کیا
قیامت کی شام غریباں بپا کر رکھی ہے ، کوئی موٹر سائیکل کار، گھر نقدی، بنک دوکان کچھ بھی ان وحشی درندوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں جن میں ایک کے بھی حدود اللہ کے نفاذ کے ذریعے سعودی عرب کی طرح سرعام ہاتھ کاٹ دئیے جاتے تو پورے ملک میں امن و امان ہو جاتا ۔ سارے وسائل دہشت گردوں کو روکنے میں مصروف ہیں تو پیچھے سے ان جرائم پیشہ عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے ۔ کوئی مر د عورت، امیر غریب، بچہ بزرگ شریف شہری نہ گھر میں محفوظ ہے نہ باہر ، چادر چار دیواری کے تحفظ کے ذمہ دار گہری تان کر سوئے ہیں عوام کو ان کا نشانہ بننے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے
جن کی کسمپر سی کا مداوا کرنے اور زخموں پر مرہم رکھنے والا بھی کوئی نہیں،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو وہ میرے ذمہ ہے اسکے برعکس آج صورتحال یہ ہے کہ جرائم پیشہ و دہشت گرد عناصر عوام کو جانوروں کی طرح ماراور نوچ رہے ہیں مگرراگ و رنگ میں مگن بے حس حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران اپنی پرآسائش رہائش گاہوں میں خواب خرگوش کے مز ے لے رہے ہیں۔
راقم الحروف کے ساتھ ڈکیتی کی واردات میں کچھ اچنبھا کی بات نہیں، ساری دنیا میں صحافیوں کو اپنی ذمہ داریوں سے روکنے ، انہیں حق گوئی کامزا چکھانے او ر حق سچ بیان کرنے سے باز رکھنے کیلئے ان کی ایسی ہی “پذیرائی “کی جاتی ہے لیکن پاکستان نے اس معاملے میں بھی گذشتہ سال “سونے کا تمغہ “جیت لیا ہے ۔14صحافیوں کے قتل کے ساتھ پاکستان دنیا میں “پہلے نمبر “پر رہا، بی بی سی پر صحافیوں کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے 2014ء میں سب سے خطرناک ملک ثابت ہوا افغانستان ، فلسطین ، عراق،یوکرین،شام، عراق سمیت بیشتر ممالک بھی 118 صحافیوں کی مقتل گاہ بنے۔
پاکستان میں وڈیروں، ایم این اے ، ایم پی اے اور دیگر جماعتوں و اداروں کی کرپشن وبدعنوانی کو چھپانے سمیت کسی بھی معاملے میں”بوتل ،لفافہ وپلاٹ “وغیرہ لینے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو سچ گوئی کی بڑی قیمت دینی پڑتی ہے، کسی کے بچے تاوان کے لئے اغواہوجاتے ہیں ، کسی کی فیملی کو ہراساں کیا جاتا ہے ،کسی کی کار جلا دی جاتی ہے،کسی صحافی واینکرکو باعث عبر ت بنانے کیلئے مجمع کے ہاتھوں سرعام عزت افزائی کرا دی جاتی ہے ، کسی ادارے کے اشتہارات بند کر دئیے جاتے ہیں ، کسی کے گھر چور اورڈاکو آکر انکارِ لفافہ وحق گوئی کی قیمت وصول کر کے لے جاتے ہیں کہ ان حالات میںشریف صحافی ظلم و ستم سے تنگ آ کر ظالموں کے شر سے بچنے کیلئے یہ پیشہ ہی چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
اگر صحافیوں جیسے معزز اور طاقتور طبقے کے ساتھ بھی ایسی پزیرائی ہو سکتی ہے تو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر نے عام شہریوں کی کیا درگت بنائی ہو ئی ہو گی، عوام حکمرانوں کے لئے محض بھیڑ بکریوںسے زیادہ کچھ نہیں اورجشن بہاراں و کیٹل شوز کو چھوڑ کر عوام کے مسائل حل کرنا حکمرانوں کی ترجیحات کی لسٹ میں شائد سب سے آخر میں بھی نہیں … اس تمام صورتحال پر ساغر صدیقی کے اس شعر کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے!