تحریر۔حذب اللہ مجاہد گزشتہ عام انتخابات کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت نے ایک انتہائی احسن قدم اٹھا کر بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ۔ ذرا دیگر مسائل اور صوبائی حکومت کی تعلیمی ایمرجنسی پر گفتگو کرنے سے پہلے لفظ ایمرجنسی پر کچھ نظر ڈالیں تو ایمر جنسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو ہنگامی بنیادی پر حل کرنا جب کسی شعبے میں ایمر جنسی کا نفاذ ہوتا ہے تو دوسرے تمام مسائل فی الوقت ثانوی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں کیونکہ ایمر جنسی کا نفاذ تب ہوتا ہے جب کسی شعبے میں موجودمسائل انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
ان حالات میں کہ جب بلوچستان میں تعلیمی مسائل انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکے تھے ڈاکٹر مالک حکومت کی جانب سے تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کا اعلان ایک انتہائی دانشمندانہ فیصلہ تھا جسے تعلیم دوست طبقوں سے سراہامگر اب اس کو ڈاکٹر مالک حکومت کی بد قسمتی کہیں یا پھر بلوچستان کے غیور عوام کی بدقسمتی کہ تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ سے جس طرح کی امیدیں عوام نے لگا رکھی تھیں معاملہ اس کا بالکل الٹ ہوگیا ۔ پنجگور، تربت سمیت مکران ڈویژن میں کئی اسکولوں کو نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکی دیکر بند کردیا گیا ، کچھ اسکول جلادئیے گئے
بلوچستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ بلوچستان یونیورسٹی کئی عرصے تک بحران کا شکار رہا، کئی ماہ اساتذہ و دیگر عملے کی تنخواہیں ادا نہیں ہوئیں، جس طرح سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ڈگری کالجز او ر انٹر کالجز ے طلباء تعلیمی ایمرجنسی سے پہلے لیکچرارز کے انتظار میں تھے وہ طلباء آج بھی لیکچرارز کی راہ تک رہے ہیں
بلوچستان کے واحد تعلیمی بورڈ بلوچستان بورڈآف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میں بدعنوانی اور طلباء کے مستقبل سے کھیلنا ایک معمولی بات بن گئی جس کی وجہ سے فزکس پریکٹیکل میں خضدار کے سینکڑوں طلباء کو ان کے پیپرز چیک کئے بغیر ہی فیل قرار دیا گیا، بلوچستان کے کئی دور دراز علاقوں میں ایم اے و بی اے کے امتحانی مراکز نہ ہونے کی وجہ سے جس طرح طلباء کو کئی مشکلات کا سامنا تھا ان کو آج بھی ان مسائل کا سامنا ہے۔ چونکہ آج میرا موضوع کچھ اور ہے اس وجہ سے ان مذکورہ بالامسائل پر پھر کبھی تفصیلی بحث کریں گے ۔
آج میرا موضوع بلوچستان کے تاریخی ضلع لسبیلہ کے علاقے اوتھل میں موجود لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر ، واٹر ایندمیرین سائنسز کے واٹر ریسورسز منیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے طلباء کے مسائل ہیں جو کہ گذشتہ کئی عرصوں سے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
Lasbela University of Agriculture
لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائینسز کا قیام 2005 میں عمل میں لایا گیا قیام کے وقت یونیورسٹی میں واٹر ریسورسز منیجمنٹ نامی اس ڈیپارٹمنٹ کا وجود نہیں تھا مگر کچھ عرصے بعد یونیورسٹی میں واٹر ریسوسر منیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ گذشتہ سات سال سے بی ایس واٹر ریسورسزمنیجمنٹ کے نام سے چار سالہ ڈگری پروگرام کروارہا ہے ۔ اب تک اس ڈیپارٹمنٹ سے تین بیچ (Batch)فارغ ہوچکے ہیں جن میں طلباء کی تعداد تقریبا 160 کے لگ بھگ ہے جو کہ یہ پروگرام مکمل کرکے بی ایس واٹر ریسورسز منیجمنٹ کی چار سالہ ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔
اگر ہم اس ڈیپارٹمنٹ سے قریبی تعلق رکھنے والے شعبوں یعنی واٹر ریلیٹڈ ڈیپارٹمنٹز (Water Related Departments) پر نظر دوڑائیں تو ان میں آب پاشی(Irrigation)، پی ایچ ای(PHE)،واپڈا واٹر ونگ(Wapda Water Wing)،انوائیرومینٹل پروٹیکشن ایجنسی(Environmental Protection Agency)، ایگریکلچر واٹر منیجمنٹ(Agriculture Water Management)،و دیگر کئی ایسے شعبے ہیں جو کہ اس پروگرام سے متعلقہ ہیں جن کی ایک فہرست یونیورسٹی کی پراسپیکٹس میں بھی ملتی ہے۔ مگر اس کو یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی کہا جائے یا پھر طلباء کی بد قسمتی کیونکہ سات سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود ان تمام شعبوں میںاس ڈگری کو متعارف نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ پبلک سروس کمیشن نے بھی اس ڈگر کو مسترد کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ یہ ڈگر ی ابھی تک سروس ایکٹ رول میں شامل نہیں ہے۔
ان تمام مسائل کے حل کیلئے طلباء نے کئی دفعہ یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی وقتا فوقتا رابطہ کیا مگر یونیورسٹی انتظامیہ کے کان کے پیچھے جوں تک نہیں رینگی تب طلباء نے مجبور ہوکر احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور کئی عرصے سے لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر ، واٹر ایندمیرین سائنسز اوتھل کے واٹر ریسورسز منیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے طلباء کلاسوں اور امتحانات کا بائیکاٹ کرکے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں اس حوالے سے طلباء نے وزیر اعلی بلوچستان سمیت صوبائی حکومت میں شامل کئی لوگوں سے ملاقات بھی کی ہے جنہوں نے طلباء کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کیلئے اقدامات کریں گے مگر تا حال حکومتی اہلکاروں کی یقین دہانیاں صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود رہے ہیں کوئی عملی اقدام نظر نہیں آیا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت کو ضروری سمجھتا ہوں کہ ان طلباء کے مسائل اور ان کے مطالبات اتنے پیچیدہ بھی نہیں ہیں کہ کسی کے سمجھ میں نہیں آئیں بلکہ ان کے مطالبات انتہائی سادہ ہیں کہ واٹر ریسورسز منیجمنٹ کی ڈگری کو سروس رول میں شامل کیا جائے، واٹر ریسوسز منیجمنٹ کی ڈگری کو اس سے متعلقہ تمام شعبوں میں متعارف کرواکر اس کیلئے نوکریاں مختص کی جائیں اور پبلک سروس کمیشن کی جانب سے اس ڈگری کو مسترد کرنے کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں تو پبلک سروس کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے لیٹر کا مدلل جواب دیںتاکہ وہ اس ڈگری کی حمایت پر مجبور ہوجائیں ۔ میرے خیال سے ان میں سے کوئی مطالبہ پیچیدہ یا غیر قانونی نہیں ہے کہ جن کو ماننے میں تاخیر سے کام لیا جارہا ہے جس کی وجہ سے نام نہاد تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کے باوجود طلباء سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں جن کا یہ قیمتی وقت جو کہ تدریس و تحقیق میں خرچ ہونا چاہئے تھاسڑکوں پر ضائع ہورہا ہے۔