قومی امنگوں کو توقعات کے آخری پائیدان پر پہنچانے والا الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے مسلسل میڈیا کی زدپر ہیں۔ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف جہاں تمام ہی سیاسی جماعتیں شورمچارہی ہیں اور دھرنوں کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہی ہیں وہیں میڈیا بھی ایسے ایسے فوٹیجز اور کلپس دکھارہا ہے جنہیں دیکھنے کے بعد کوئی بھی فرد انتخابات کی شفافیت پر یقین تو دور گمان بھی نہیں کرسکتا۔
انتخابی عمل اور انتخابی نتائج نے ثابت کیا کہ انتخابات کی ذمہ داری تو الیکشن کمیشن کی تھی مگر اسے انجام کوئی اور دے رہا تھا اور چونکہ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخاب کا وعدہ کیا تھا ذمہ داری انجام دینے والوں نے نہیںاسلئے گلہ شکوہ بیکار ہے مگر اس کے باوجود چند ٹی وی اینکرز کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سمیت چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرائے جانے اور انتخابات میں دھاندلیوں کے حوالے سے کمیشن تشکیل دیکر ان تمام شخصیات سے تفتیش کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آچکا ہے۔
کراچی کے حلقہ 250پر11مئی کے دن تاخیر سے شروع ہونے والی پولنگ کو چند گھنٹوں کے بعد روک کر 19مئی کوتمام پولنگ اسٹیشنز کی بجائے محض 43مخصوص پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کے ذریعے ماضی کی سیاسی صورتحال برقرار رکھنے کی کوشش بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخابات کے معاملات الیکشن کمیشن کی دسترس سے بہت اوپر سے انجام دیئے جارہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عوامی نیشنل پارٹی کے سیاسی صفایا کے بعد کراچی میںدکھائی دینے والے متحدہ راج کیخلاف حکمت عملی اپناتے ہوئے کراچی کے حلقہ 250 پر 43 مخصوص پولنگ اسٹیشنوں پر ری پولنگ کے ذریعے تحریک انصاف کو فتح دلانے کا مقصدمتحدہ کو اسی طرح نکیل ڈالنا تھاَ
جس طرح ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کو اسی تناسب سے فتح دلاکر کیا گیا تھااور اب پھر صورتحال وہی بنادی گئی یعنی جس طرح ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پاس مرکزی حکومت میں کردارکے ساتھ خیبر پختونخواہ میں حکومت اور سندھ اسمبلی میںنمائندگی کے ساتھ کراچی میں اختیار موجود تھا اب وہی سب کچھ تحریک انصاف کو حاصل ہے ۔ جس کا مطلب یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اب شاہی سید کے کردار کی ادائیگی کیلئے عارف علوی کا انتخاب کیا گیا ہے۔
صورتحال بتارہی ہے کہ متحدہ کی موجودگی میں کراچی کے میدان میں گینگ وا ر اور تحریک انصاف کو کھلانے کی کوشش صورتحال میں مزید نزاکت پیدا کرنے کا باعث بنے گی اور کراچی کے شہریوں کوایکبار پھر امن سے دوری کی تکلیف جھیلنی ہوگی کیونکہ ماضی کی صورتحال برقرار رکھتے ہوئے اب کی بار متحدہ کے مقابلے میں گینگ وار کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو ایستادہ کردیا گیا ہےَ
Political Party
جبکہ کراچی میں زہرہ شاہد کے قتل کا سیاسی فائدہ اٹھاکر دو صوبائی اور ایک قومی کی نشست پر کامیابی حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان نے زہرہ شاہد کے قتل کا بلا تاخیر و تحقیق الزام براہ راست الطاف حسین پر لگاکر جس طفلانہ سیاست کا مظاہرہ کیا اس کے اثرات میں متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان ایک بار پھر وہ خلیج حائل ہوتی دکھائی دے رہی ہے جو ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ کے درمیان حائل تھی جسے مزید گہرا کرنے کیلئے نادیدہ قوتوں نے پختونوں اور مہاجروں کا بڑا لہو بہایا۔
قومی سطح پر مسلم لیگ نے حکومت سازی کیلئے ان روایتی سیاستدانوں کے ساتھ رابطے کرنے شروع کردیئے ہیں جو ہمیشہ عوامی فلاح کی کشتی میں سوراخ کرنے کے موجب پائے گئے ہیں ‘ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں رہنے کے مزے لوٹنے والوں کو حکومت سازی میں دعوت مسلم لیگ (ن) کیلئے مستقبل میں پشیمانی اور عوام کیلئے پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے کیونکہ حلیفوں کی مدد سے بنائی جانے والی حکومت عوامی معاملات سے زیادہ حلیفوں کے مفادات کے تابع ہوگیَ
افہام و تفہیم کی یہ پالیسی ماضی کی حکومت کو ناکام ثابت کرنے کے ساتھ عوام کیلئے دردناک مسائل و مصائب کی بنیاد و وجہ بھی رہی ہے اسلئے میاں نوازشریف صاحب کو اس حوالے سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے پاس ذاتی مینڈیٹ کی شکل میں اتنی سیٹیں ضرور موجود ہیں کہ وہ چند آزاد امیدواروں کو ملاکر باآسانی مضبوط حکومت بناسکتے ہیں مگر شاید صدر پاکستان کو قبل از وقت ان کے عہدے سے ہٹانے کی عجلت کا شکار میاں صاحب کے مصاحبین میاں صاحب کا حال آسمان سے ٹپکا کھجور میں اٹکا کے مترادف بنادینا چاہتے ہیں۔
میاں نوازشریف اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے منتظم بھی ہیں مگر چاپلوس پسندی کی بشری خامی سے نجات پالیں اور اپنے اطراف کو ایسے مصاحبین و مشاورین سے پاک کرلیں جو انہیں” امیرالمومنین ”بننے کا خواب دکھاکر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے ان سے غلط فیصلے کراکر انہیں اور ملک و قوم کو مشکلات میں ڈالتے رہے ہیں تو یقینا میاں صاحب ایک بہترین حکمران بھی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ تاریخ ثابت کرتی ہےَ
ان کے دونوں ادوار میںان کا ابتدائی طرز حکمرانی عوام کیلئے موزوں و مؤثر رہا مگر پھر مصاحبین کے مشورے کام آئے اور دونوں بار غلط اقدامات کی بدولت میاں صاحب کو جمہوریت کی رخصتی کا گلہ پیدا ہوا۔ لہٰذا اس بار احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ قوم انتہائی برے حال میں ہے اور عوام چاہتے ہیں کہ یہ حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرے اور عوام ملک و قوم کیلئے ایسی پالیسیاں تشکیل دے جن کا ثمر براہ راست عام عوام اور وطن عزیز کے تمام طبقات تک پہنچے۔
Fazlur Rehman
خیبرپختونخواہ میں مولا فضل الرحمن کی خواہش کو نظر انداز اور کوشش کو ناکام بناتے ہوئے میاں صاحب نے تحریک انصاف کے عوامی مینڈیٹ کے تحت عمران خان کو حکومت سازی کا موقع دیکر ایک اچھی روایت کا آغاز کیا ہے جبکہ بلوچستا ن میں بلوچ قیادت کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کرکے بلوچستان کے احساس محرومی کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے جس کے مستقبل میں بہترین نتائج برآمد ہوں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سازی اور کراچی و سندھ میں قیام امن کیلئے تعاون کی فراہمی کی یقین دہانی اس مثبت سمت سفر کا اشارہ ہےَ
جس کی قوم کو ضرورت ہے لیکن اگر پنجاب میں حکومت سازی کرتے ہوئے ق لیگ سے بھی مفاہمت کرلی جائے تو یقینا پاکستان کی سیاسی فضا میں ایک اچھی روایت بھی قائم کی جاسکتی ہے اور بہترین تاثر بھی چھوڑا جاسکتا ہے۔ پرویز مشرف پر قائم مقدمات میں سے بینظیر قتل کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے مشرف کی ضمانت قبول کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا ہے جو اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ مشرف حالت سکون کی جانب لوٹنے لگے ہیں۔
کیونکہ مشرف کو انتخابات و عوام سے دور رکھنے کیلئے بنائے جانے والے تمام مقدمات اپنے منطقی انجام کی جانب پہنچتے دکھائی دے رہے ہیں اور میاں نواز شریف کے6جون کو بحیثیت وزیراعظم حلف اٹھانے سے قبل یا حلف اٹھانے کے فوری بعدپرویز مشرف ایک بار پھر دیار غیر سدھار جائیں گے جبکہ راقم کی اطلاعات کے مطابق پرویز مشرف نے واپسی اور انہیں واپس بھیجنے والوں نے ان کی روانگی کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔ پرویز مشرف کی ملک بدری کے سوا میاں نوازشریف کے پاس کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔
گوکہ اس فیصلے سے انہیں شدید مخالفت اور بالخصوص طالبان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساتھ سندھ و بلوچستان کے قوم پرستوں کی بھرپور تنقید و احتجاج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا مگر چونکہ” سیاست نہیں ہے کھیل بچوں کا ”اور میاں صاحب منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اس لئے مشکلات ‘ احتجاج اور تنقید سے اس پل صراط سے گزرجائیں گے کیونکہ مشرف کی ملک بدری بھی ان شرائط میں سے ایک شرط ہے جن کے تحت میاں صاحب کو اقتدار عطا کیا گیا ہے۔
آل پاکستان مسلم لیگ کے الزامات کے مطابق پاکستان کے دو مقتدر اداروں کے سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کی شرط تسلیم کرنے پر ہی میاںصاحب کو اقتدار عطا ہوا ہے اسلئے جہاں دانشور حلقے کیانی نواز ملاقات کو جمہوری رویہ اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی جانب بہترین روایت قرار دے رہے ہیں وہیں آل پاکستان مسلم لیگ کا الزام اس شبہ کو تقویت دے رہا ہے کہ یہ ملاقات شاید ایفائے عہد کی یاددہانی و اقرار کے حوالے سے تھی اور اگر ایسای ہے تو پھر دوسرے مقتدر ادارے کے سربراہ کی میاں صاحب سے جلد ہی ملاقات متوقع ہے۔
Nawaz Sharif
دوسری جانب عوامی توقعات کا ایک پہاڑ ہے جسے میاں نوازشریف کو سرکرنا ہے اور پہاڑ کے ابتدائی سرے پر ہی غرقاب معیشت اور توانائی بحران کے سیلاب ان کے منتظر ہیں انہیں سب سے پہلے ان دونوں سے نمٹنا ہوگا اور اگر وہ بروقت ان طوفانوں سے نمٹنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر انہیں کرپشن کے اس بچھو کو قابوکرنا ہوگا جو ہماری قوم کی رگوں میں حرام کازہر سرایت کررہا ہے جبکہ کرپشن سے نجات کے بعد انہیں تعلیم و صحت کی سہولیات اور معاشرتی بگاڑ پر توجہ دینے ہوگی۔
لیکن ان سب سے پہلے توانائی بحران کا خاتمہ گیس و بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات اور امن وامان کے قیام کے ساتھ صنعت تجارت و ذراعت کے فروغ اور عوام کو روزگارکی فراہمی پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی ہوگی جبکہ ساتھ ہی ساتھ مہنگائی ملاوٹ ذخیرہ اندوزی اقرباپروری اختیارات کے ناجائز استعمال اور استحصال و ناانصافی کے جن کو بھی قابو کرنا ہوگا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
تو پھر کوہ ہمالیہ سے بھی بڑا مسائل کا یہ پہاڑ ان کے عزم کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوگا اور وہ اس پہاڑ کو ڈھاکر قوم کو اس پہاڑ کے دوسری جانب موجود ترقی و خوشحالی کی دنیا میں پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اللہ تعالیٰ میاں صاحب کو ہدایت حوصلہ ‘استقامت اور کامیابیاں عطا فرمائے کہ اب قوم کا مستقبل ان کے ہاتھ ہے۔ تحریر : عمران چنگیزی imrankhanchangezi@gmail.com