اندازِ بیاں اور!

Pakistan

Pakistan

ایک حقیقی قلمکار وہی ہے جو اپنے قلم سے عصری مسائل کو سطحِ قرطاس پر لاتا ہے۔ جب یہ آلام و مصائب اخبارات، رسائل اور کتب کے صفحات پر ابھرتے ہیں تو کسی نہ کسی وسیلے سے ارباب اختیار تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ قلمکار ان مسائل کو زیرِ بحث لاکر معاشرے کے درد بانٹنا چاہتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج صاحب کی تصنیف ” افکار شگفتہ” کئی دنوں سے میرے پاس ہے مگر ناسازیٔ طبیعت کی بنا پر صرف طائرانہ نظر ہی ڈال پایا ہوں۔ ان کی کتاب میں چھپے مضامین کا میں خود بھی قاری ہوں جبکہ افکار شگفتہ میں چھپے مضامین تو بے حد بولڈ اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کی کتابوں میں علم کی جھلک اور نئی روشنی پائی جاتی ہے۔ خدا ان کو مزید طاقت دے تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ ملک و قوم اور خاص کر طاب علموں کی خدمت کر سکیں۔

درحقیقت کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج نے علمی، ثقافتی اور تہذیبی رشتوں کے بقا کے لئے بے پناہ محنت و عرق ریزی سے کام لیا ہے، جسے تفسیری ادب کے متوالے فراموش نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی شخص یوں ہی کمال کے درجے کو نہیں پہنچتا ہے، کوئی نہ کوئی کام ایسا کرتا ہے جس کی بنا پر اسے تقویت مل جاتا ہے، اسے Stimulate کرتا ہے جو اس کی شناخت قائم کرنے میں معاون بن جاتا ہے۔ ویسے تو ڈاکٹر صاحب کی شناخت قابلِ احترام استاد کی حیثیت سے مانی جاتی ہے اور حال ہی میں انہوں نے ”ڈی لیٹ ” کی ڈگری بھی حاصل کی ہے، ڈی لیٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے وہ سندھ کے پہلے، پاکستان کے دوسرے اور برصغیر پاک و ہند کے تیسرے شخصیت ہیں، مگر ان کی دیگر کتب اورخاص کر ”افکار شگفتہ” نے ان کی پہچان بڑھا دی ہے۔”افکار شگفتہ ” کے پڑھنے کے بعد پروفیسر صاحب کی علمی، تفسیری اور ادبی تاریخی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب کے لئے معروف شاعر عرفان صدیقی کا یہ شعر ان کی قدر و قیمت کا تعین کرتا ہے۔

میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کی تلاش میں ہوں
کوئی طلسم مجھے چار سُو پکارتا ہے

مصنف کی یہ کتاب ٢٦٧ صفحات طویل ہے، انتساب جناب اعظم سعیدی صاحب کے نام ہے جو اوج صاحب کے استاذ من و مُرّبی بھی ہیں، کتاب میں ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کے چند صفحات ” فکرِ اوج سے اوجِ ثریا تک” قابلِ تعریف ہے جو انہوں نے مصنف کتاب کے لئے لکھے ہیں۔پھر خود مصنف نے ” احوالِ واقعی ” کے عنوان سے ” افکار شگفتہ ” پر اپنے تاثرات بھی دیئے ہیں، خدائے بزرگ و برتر ان کے افکار کو یونہی نکھارتا رہے اور قاری حضرات بھی اس کی خوشبو سے مہکتا رہے۔اس کے علاوہ کتاب میں مختلف عنوانات کے تحت ٢٤ مضامین بھی ہیں جن کے عنوانات کا یہاں تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

حروفِ مقطعات اور ان کے معارف، تفہیم الاسلام (چند مغالطے اور ان کے ازالے) ائمہ مجہتدین کے اختلافات اور ان کی نوعیت، حنفی اصول الفقہ، فقۂ حنفی کا اجمالی تعارف، اعضاء کی پیوند کاری کا جواز، کائنات کی مادّی توجیہہ اور اسلامی اعتقادات، اسلامی سائنس کے یورپ پر اثرات، خانۂ کعبہ (روئے زمین کی سب سے قدیم عبادتگاہ، کیا عصرِ حاضر میں خلافتِ راشدہ کا قیام ممکن ہے؟۔

Quran

Quran

قرآن و سنت کی عظمت و اتباع، نہج البلاغہ کی روشنی میں، تصوف۔ تلاش احسن کی ہمہ گیر تحریک، جمعیت علماء ہند اپنے قیام سے قرار دادِ پاکستان تک، سیاسی مذہبی اور روحانی ملوکتیں، اظہارِ رائے کی آزادی کا قرآنی تصور، اتحادِ امت کی راہ میں رکاوٹیں، عذابِ الٰہی کا قرآنی مفہوم، رئویتِ ہلال میں سائنسی علوم کا کردار، پاکستان میں اقلیتوں کا مستقبل…محفوظ ہے یا غیر محفوظ، انسدادِ منشیات میں سول سوسائٹی اور والدین کا کردار (اسلامی تعلیمات کی روشنی میں)، خلع میں قاضی یا حاکمِ عدالت کا اختیار، ہمسائے کے حقوق، اسمائے کتبِ اعلیٰ حضرت کا علمی جائزہ اور منہاجِ تحقیق ۔ ان تمام مضامین کو یکجا کرکے مصنف نے کتاب”افکار شگفتہ ” کے نام سے مرتب کی ہے ، یہ مضامین بلاشبہ ان کی علمی کاوش اور عصرِ حاضر میں دین سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے لئے ہدایت بھی ہے۔

اوج صاحب کی شخصیت کو اگرچہ علمی و ادبی، سیاسی ، اسلامی اور تمدنی اعتبار سے ہر عہد میں مرکزیت حاصل رہی ہے لیکن اہلِ دانش کی نگاہیں ”افکارِ شگفتہ” پر جمتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پروفسیر اوج نے بدلتے مناظر میں جس طرح حوصلے سے کام لیا ہے وہ یقینا قابلِ ستائش ہے۔ یہ کتاب موصوف کی فکری و علمی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ شرطِ وفا تو یہ ہے کہ اس کتاب کو خرید کر پڑھا جائے تاکہ اس کی طباعت کے سلسلے دراز ہوتے رہیں، توقع ہے کہ ادبی و تفسیری دنیا میں اس کتاب کی پذیرائی کی جائے گی۔ کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر اوج خود بھی اپنے لوگوں سے بہت محبت و شفقت کرتے ہیں تو وہیں ان کے عقیدت مند بھی ان سے بے پناہ محبت کرنے والے ہیں،اور ان کی کتابوں کے دلدادہ ہیں۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ حافظ اوج صاحب کی دعائیں اور ان کی شفقتیں ساون بھادوں کی طرح ان کے چاہنے والوں پر برستے رہیںاور ان کا سایہ تادیر سب پر قائم و دائم رہے تاکہ اسی طرح وہ اپنی تخلیقات سے ہم سب کو مستفید فرماتے رہیں۔آمین

Jawed Siddiqi

Jawed Siddiqi

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی