تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی حقیقت یہ ہے کہ ملک و معاشرہ جس قدر بڑا ہوگا اسی تناسب سے حالات و واقعات بھی رونما ہوں گے۔یہ الگ بات ہے کہ واقعات جو رونما ہو رہے ہیں وہ کسی کے لیے خوشگوار تو کسی کے لیے ناگوار ہو سکتے ہیں۔اس کے باوجود تمام ہی باشعور شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کو خراب ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ لیکن معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جبکہ مسائل جن کے حل کے لیے عوام نہ صرف متوجہ بلکہ سرگرم عمل بھی رہنا چاہتے ہیں،ان تمام یا ان میں سے بیشتر مسائل کے حل کے اختیارات ریاستی یا مرکزی حکومتوںکے پاس ہوتے ہیں یا وہ اس پوزیشن میں ہوتی ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کے عمل سے گزریں اورفیصلوں کا نفاذ کر سکیں۔دوسری جانب عوام جو گرچہ فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، احتجاج کرتے ہیں اور حکومت کو پابند عہد بناتے ہیں۔ان عہد کا پابند جن کا وعدہ انتخاب سے قبل کیا گیا تھا۔
کہ اگر وہ حکومت میں آئیں گے تومسائل حل کریں گے،عدل و انصاف اور امن و امان قائم کریں گے اور ترقی و فلاح وبہبود کے کاموں کو انجام دیں گے۔اسی سلسلے کا ایک واقعہ آج سے ٹھیک تین سال قبل ملک کے دارالحکومت دہلی میں چلتی بس میں ایک نوجوان میڈیکل طالبہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا رونما ہوا تھا۔اُس موقعہ پر پورا ملک جن حالات سے گزرا اور جس طرح عوام نے اس بدترین واقعہ کے خلاف بھر پور انداز میں احتجاج کیا،وہ نہ صرف مثالی بنا بلکہ ملک و بیرون ملک ہر سطح پر قصورواروں کو سخت سے سخت سزا دلوانے کی بات کہی گئی۔حکومت بھی متوجہ نظر آئی اور جوینائل عمر گھٹانے اور بدترین مجرمین کو سخت سزا دلانے کی باتیں کہی گئیں۔
India
آپ یہ بھی باخوبی جانتے ہیں کہ چونکہ سنہ 2000 میں ایک ترمیم کے ذریعہ نابالغ مجرم معاملے میں عمر کی حد بڑھا کر 16 سے 18 سال کردی گئی تھی۔اس عمر کو کم کرنے کی جب بڑے پیمانہ پر مانگ ہوئی تو سنہ 2013 میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے پھر سے عمر 16 سا ل کرنے کی بات کہی۔اس کے باوجود آنے والی 20 دسمبر 2015 میں وہی نابالغ جو نربھیا معاملہ میں ملوث تھا،زانی مجرم کی رہائی ہونے والی ہے اور ہائی کورٹ نے رہائی روکنے سے انکار کر دیا ہے۔عدالت کا کہنا ہے کہ قصوروارٹھہرائے جانے کے وقت مجرم نابالغ تھا،لہذا تین سال کی سزا بچہ اصلاح گھر میں اس کی پوری ہوچکی ہے۔
ایسے میں اب کوئی ایسا قانون نہیں ہے جس سے سزا کاٹنے کے بعد اسے مزید اصلاح گھر میں رکھا جا سکے۔ وہیں متاثرہ کی ماں پھوٹ پھوٹ کر رورہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود اتنے بڑے مجرم کو عدالت نے چھوڑدیا۔ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انصاف ملے گا لیکن وہ نہیں ملا۔زنا بالجبر جو ایک تشویشناک واقعہ ہے،ملک میں ہر دن 93خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے۔اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 2014میں پورے ملک میں 36735عصمت دری کے واقعات ہوئے جن میں صرف دہلی میں عصمت دری کے 3000واقعات ہوئے ہیں۔
Corruption
اس ایک مسئلہ کے بعد دوسرے مسئلہ کا رخ کریں تو معلوم ہوگا کہ کرپشن میں اس وقت ملک کا ہر چھوٹا اور بڑا شخص راست یا بالواسطہ طور پر کہیں نہ کہیں ملوث ہے۔ لیکن اگر بالواسطہ کرپشن کو نظرانداز کربھی دیا جائے توراست اس جرم میں ملوث افراد کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہے کہ صرف انہی کے جرائم کی ایک طویل فہرست تیار ہو سکتی ہے۔یوں تو کرپشن ہر دور میں رہا ہوگا لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں جس تیزی سے یہ پھلا پھولا ہے شاید ہی کسی زمانے میں اتنی بدترین شکل میں یہ سامنے آیا ہو۔پھر اہل اقتداراس کرپشن کی اصل جڑ ہیں۔ویسے بھی عوام کسی زمانے میں اتنے بڑے پیمانہ پر کرپشن میں ملوث نہیں ہو سکتے۔
اس معاملے میں بھی برسراقتدار لیڈران نے حکومت سنبھالتے وقت اور اس سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے ہر ممکن طریقہ سے ختم کریں گے۔لیکن افسوس کہ نہ وہ ایسا کر سکے اور نہ ہی وہ اپنی سطح پر کوئی مثبت مثال قائم کرنے کی پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔وہیں راجدھانی دہلی میں گزشتہ سالوں آنے والی ایک نئی سیاسی پارٹی نے بھی بڑی بیباکی کے ساتھ کرپشن کے مسئلہ کو اٹھایا تھا ۔ساتھ ہی اس کے حل اور خاتمہ کے عہد و پیمان کیے تھے۔ اس کے باوجود آج کل اور گزشتہ مہینوں میں خود ان کی پارٹی کے لیڈران مختلف قسم کے کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں۔پھر جس طرح عام آدمی پارٹی نے دہلی سکریٹریٹ میں چھاپہ ماری کے بعد بی جے پی کے ارون جیٹلی پر پے درپے وار کیے ،واضح کر تا ہے کہ حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔کیجریوال کا کہنا ہے کہ جیٹلی کئی سالوں تک ڈی ڈی سی اے کے صدر رہے ،اس دوران ڈی ڈی سی اے میں بدعنوانی کے متعدد الزامات عائد کئے گئے ،جیٹلی بھی اس میں ملوث ہیں۔
وہیں کرپشن اور اس میں ملوث اہم ترین شخصیات اب کرپشن جو انہوں نے کیا یا جس کا الزام ان پر لگایا جا رہا ہے،اس کی پرواہ کیے بغیر سیاسی بساط پر شہ مات کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔بی جے پی کے سبرامنیم سوامی نے سنہ 2012 میں مودی حکومت کے برسر اقتدار میں آنے سے قبل نیشنل ہیرالڈ کے مالکانہ حق کو لے کر سونیا اور راہل گاندھی پر جائیداد پر قبضہ کیے جانے کی مجرمانہ سازش کا الزام لگایا ہے۔سوامی کے مطابق سونیا اور راہل نے نیشنل ہیرالڈ کی 5000 کروڑ روپے سے زیادہ کی جائیداد غبن کی ۔اس کے لیے پہلے کانگریس نے غیر قانونی طریقے سے پارٹی فنڈ سے 90کروڑ کا لون دیا ۔پھر ایک ینگ انڈیا کے نام سے کمپنی بنائی۔ہیرالڈ چلانے والی کمپنی ایسوسی ایٹ جنرل سے 99 فیصد اسٹاک غلط طریقہ سے ینگ انڈیا کے نام ٹرانسفر کرائے۔
Rahul Gandhi
اور اس نئی کمپنی میں 76 فیصد حصہ داری سونیا اور راہل گاندھی کی ہے،بقیہ کانگریس خرانچی موتی لال وہرا اورآسکر فرنانڈیز اور سیم پترودا کے پاس ہے۔اور آج جب اس پورے معاملے پر کورٹ میں پیشی ہوئی تو مسئلہ کرپشن کا نہیں بلکہ انا کا بن گیا جسے بعد میں سیاسی رخ دیا جا رہا ہے۔اور وہ بھی اس امید کے ساتھ کہ بازی ہمارے ہی ہاتھ لگے گی،یعنی ہم ہر سطح پرکامیا ب ہوں گے اورایک بار پھر برسراقتدار آئیں گے ۔دلچسپ بات یہ کہ کرپشن جس کی بنیاد پر کانگریس پارٹی کا صفایا ہوگیا تھا،اسی کانگریس پارٹی اور اس کی اعلیٰ قیادت کو ایک بار پھرکرپشن کی آڑ میں امید بندھی ہے ۔لہذا میدان ہموار کیا جا رہا ہے اور لگتا ہے کہ بس کامیابی سامنے کھڑی ہے۔
یہاں اس مختصر اخباری مضمون میں موقع نہیں ہے کہ ایک ہی وقت میں دیگر مسائل پر بھی روشنی ڈالی جا سکے۔لہذا گفتگو کا اختتام ہندوستان کے جنوبی شہر چنئی کے خوفنا ک سیلاب سے کرتے ہیں جہاں نہ صرف بڑی تعداد میں جان و مال کا نقصان ہوا بلکہ ملک کے سلیم الحس افراد نے اس موقع پر بلا تخصیص مذہب و عقیدہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے۔چنئی کی مسجد غیر مسلموں کے لیے جائے پناہ بنی تو وہیں شہر کے نوجوان تباہ شدہ گھروں اور عبادت خانوں کی صاف صفائی کرتے نظر آئے۔دوسری جانب کچھ ایسے افراد بھی سامنے آئے جو موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں بھی چوری چکاری میں مصروف تھے۔لیکن درد ناک واقعہ نالینی کے بیٹے گوکل کا ہے۔جبکہ نالینی کی لاش بڑی مشقتوں کے بعد حاصل ہوئی ۔
اس وقت نالینی کی میت حد سے زیادہ پھولی ہوئی تھی اور ان کے جسم پر کیڑے چل رہے تھے۔ راوی کا کہنا ہے کہ ہم نے مشکل سے ان کے مردہ جسم کو صاف کیا اور ان کی میت کو لے کر سیمنچری میں واقع سرکاری شمشان گھاٹ لے گئے۔سرکاری شمشان گھاٹ، جہاں ساری خدمات مفت ہوتی ہیں، اس کا انتظام اب مقامی ٹھکیداروں کے ہاتھ میں تھا اور انھوں نے آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے 15,000 روپے کا مطالبہ کیا۔ کرونیا دیوی کا کہنا ہے کہ اندھیر پھیل رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ علاقے میں بجلی بھی غائب تھی۔ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا اور آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے رشوت دینی تھی۔ گوکل نے کہا کہ وہ 15,000 روپے مانگ رہے تھے لیکن ہم نے انھیں چار ہزار روپوں پر راضی کر لیا۔تصور کیجئے اس موقع پر کہ کرپشن کس طرح اس ملک کے ہر فرد کی نس نس میں رچ بس چکا ہے۔
دوران خون یہ نہ صرف پورے جسم میں گردش کرتا ہے بلکہ قلب و ذہن کو اس نے حد درجہ جکڑ لیا ہے۔اس موقع پر یاد رکھیے بے شمار مسائل ہونے کے باوجود حل یہ نہیں ہے کہ اسے میں یا آپ صرف بیان کرتے رہیں۔ضرور ت اس بات کی ہے کہ موجودہ سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈران سے ناطہ توڑ ا جائے اور ایک ایسی صالح اجتماعیت سے وابستگی اختیار کی جائے جو نہ صرف دنیا کے مسائل کے حل اپنے پاس رکھتی ہے بلکہ جس سے وابستگی کے نتیجہ میںابدی زندگی میں بھی کامیابی یقینی ہو جائے گی۔خصوصاً ان لوگوں کی جو جنت و جہنم پر یقین رکھتے ہیں !