اٹلی (اصل میڈیا ڈیسک) اٹلی میں نئے کورونا وائرس سے ایک طرف سے ہزارہا لوگ متاثر ہیں تو دوسری طرف لاک ڈاؤن کے سبب معاشی، تعلیمی، کاروباری اور سماجی سرگرمیاں معطل ہونے کے سبب لوگوں کی سوچ پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
اسکولی پیچینو کے رہائشی 23 سالہ پیترو کاؤچی ایک اطالوی ہیں۔ وہ مچراتہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ موجودہ صورتحال پر انہیں گہری تشویش ہے: ”میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہم سب کے لیے بہت مشکل وقت ہے۔ طویل لاک ڈاؤن ہمارے سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں پر گہرا اثر چھوڑے گا۔ خاص کر انسانی تعلقات کے بارے میں یہ ہمارے خیالات کو یکسر بدل دے گا۔ انسانی جانوں کے نقصان پر بہت افسوس ہے مگر مذید انسانی جانوں کو بچانے کے لیے شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔‘‘
واضح رہے کہ کورونا وائرس کے سبب یومیہ اموات کی شرح میں اٹلی دنیا میں پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ اس وقت اٹلی میں مکمل لاک ڈاؤن ہے اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکام کی جانب سے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کرایا جارہا ہے۔
تعلیمی اداروں، دوکانوں اور دیگر کاروبار کی بندش کے بعد جب فیکٹریوں کو بھی بند کردیا گیا تو اب فیکٹری ورکرز گھروں میں بیٹھ کر اچھے وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ محمد وقار کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے کوٹ رادھا کشن سے ہے۔ وہ یہاں چارسال سے مقیم ہیں اور جوتے بنانے کی ایک فیکٹری میں کام کرتے ہیں: “پاکستانی آپس میں یہاں کافی میل جول رکھتے ہیں۔ میں تو روز کی بنیاد پر اپنے دوستوں سے ملاقات کرتا تھا۔ مگر اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک وائرس کی وجہ سے یہ گلیاں، پارکس اور سڑکیں ایسے ویران ہوجائیں گی۔ میرے خیال میں حکومتی احکامات پر عمل کر کے ہی ہم اس وائرس کو شکست دے سکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن والے اس وقت کو میں ضا ئع نہیں کر رہا بلکہ زبان سیکھنے، کتابیں پڑھنے اور ورزش کرنے میں استعمال کر رہا ہوں۔‘‘
تازہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم کئی جگہوں کی سطح پر خود بخود ختم نہیں ہوتی۔ اِن میں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل اہم ہیں۔ دروازے کے ہینڈل پر یہ وائرس لگ جائے تو چار سے پانچ دِن تک زندہ رہتا ہے۔ اِن ہینڈلز کا صاف رکھنا از حد ضروری ہے۔
واضح رہے کہ اطالوی حکومت نے ایک امدادی بل منظور کیا ہے۔ اس بل سے فائدہ ان لوگوں کو ہوگا جواٹلی میں کسی نہ کسی طور پر یہاں کے سسٹم کا حصہ ہیں۔ مگر اٹلی میں ایشیائی اورافریقی ممالک کے بہت سے لوگ صرف پیسے کمانے آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دیہاڑی یا روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے افراد ہیں اور سسٹم کا حصہ نہیں۔
خالد کا تعلق افریقی ملک گھانا سے ہے وہ مختلف ریسٹورنٹ میں پارٹ ٹائم کچن صاف کرنے اور برتن دھونےکا کام کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ریسٹورنٹ بند ہونے کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہیں: ”ہفتے میں ایک دو دن کام مل جاتا تھا۔ کبھی کسی ریسٹورنٹ میں کبھی کسی دوسرے میں۔ اب تو سب ریسٹورنٹ بند ہیں۔ گھر کا کرایہ، کھانا پینا اور اپنے گھر والوں کو بھی کچھ رقم بھیجتا تھا۔۔۔شاید اس مہینے رقم گھر نہیں بھیج پاؤں گا۔‘‘
اٹلی میں طالب علموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ زیادہ تر طالب علم یہاں آکر حکومتی مالی امداد پر مبنی اسکالر شپ حاصل کر کے رہائش اور خوراک کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بہت کم طالب علم حکومتی امداد کے بغیر پارٹ ٹائم کام کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ ایسے طالب علم موجودہ صورتحال میں شدید متاثر ہیں۔ ان ہی میں سے ایک کراچی سے تعلق رکھنے والے ایس خان ہیں: ”میں یہ سوچ کر اٹلی آیا تھا کہ پارٹ ٹائم کام کر کے اپنے اخراجات پورے کرلوں گا۔ مگر موجودہ صورتحال نے کمر توڑ دی ہے۔ میں امدادی اسکالرشپ پر نہیں پڑھنا چاہتا تھا مگر اب شاید اس سال اپلائی کرنا پڑے گا۔ اور پتہ نہیں اس سال اسکالرشپ ملے یا نہ ملے۔‘‘