اب غریب کو نہ تو گرمیوں میں گرمی مارتی ہے اور نہ ہی سردیوں میں سردی بلکہ اس کا ذمہ گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس نے اٹھا رکھا ہے گیس تو خیر غریب کی دو تین ماہ ہڈی پسلی توڑ کر رفو چکر ہو جاتی ہے لیکن بجلی کے جھٹکے پورا سال اس کے وجود کو چھلنی کرتے رہتے ہیں۔ جرنیلی دہائیاں” اس اعتبار سے عوام الناس کے ذہنوں میں تازہ رہتی ہے کہ ایک تو کافی عرصہ بعد عوام کو جمہوریت کی ”تاریکی ” سے نجات حاصل ہوتی ہے دوسرا ملک ”سویا ہوا محل ” جیسی کفیت سے دو چار رہتا ہے اور یوں دہائیوں تک جامد رہنے کی وجہ سے دنیا کی نسبت ان ادوار میں ہونے والی ترقی ،ترقی معکوس معلوم ہوتی ہے۔
ایوب دور کو یاد کرنے والے بوڑھے اس دور کی بات اس وجہ سے ذیادہ کرتے ہیں کہ اس دور میں اشیاء خوردو نوش بہت سستی تھیں لوگ چونیوں،اٹھنیوں میں سیروں کے حساب سے چیزیں خرید لیتے تھے دیسی گھی کھلے عام ملتا تھا ڈالڈا لوگ چھپا کر استعمال کرتے تھے ۔اس دور میں پاکستان کو دو ڈیموں کا تحفہ ملا جو پچاس سال سے بجلی کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پرویز مشرف جتنی افراتفری سے آئے تھے ان کا دور ویسی ہی افراتفری کو شکار رہا سیاست میں آنے کے شوق نے ان کے اقتدار کو جلد ہی گارڈ آف آنر دلوا دیا۔
انہوں نے مکے لہرا کر جو کرنا چاہا کیا لیکن پاکستان کے عوام کے لئے کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام نہ دے سکے ان کے دور میں مہنگائی نے دال ،سبزی اور گوشت کی قیمتیں برابر کر دیں اور مسکراتے ہوئے لوگوں کو مرغی کھانے کا مشورہ دیتے رہے ۔بجلی کے بل اور عدم دستیابی لوگوں کے گھر اجاڑتی رہی اور ”چودہری”ان کے لئے چین ہی چین لکھتے رہے۔ آصف علی زرداری صاحب کی حکومت عوام کے دکھ کے فوری ازالے کے لئے کرائے کے بجلی لے کر آئی لیکن یہ سب کچھ مبینہ کرپشن کے اندھیروں کی نظر ہو گیا اور عوام اجالوں کی خواہش کے خواب آنکھوں میں سجائے انتہائی کرب کے ساتھ یہ پانچ سال گزرتے دیکھتے رہے۔
یہ دور اس لحاظ سے اچھا رہا کہ اگر وہ عوام کے لئے کچھ کر نہیں تو سکے تو انہوں نے عوام کو شدید دکھ بھی نہیں دیئے بس اپنا دھیان” کھانے ،پینے ”کی طرف ہی رکھا ۔ سو موٹو نوٹس لینے والے چیف جسٹس نے پچھلے دور حکومت میںپٹرول ،ڈیزل کے مقابل جاتی ہوئی سی این جی کی قیمتیں تو واپس لوٹا دیںاور پھر ان کو اسی لیول پر لمبے عرصے کے لئے فریز کر دیا ۔لیکن موجودہ نئی نویلی حکومت کے بجلی کی قیمتوں پر اضافے پر سو موٹو نوٹس لیا تو ضرور لیکن یہ نوٹس ،”نو ۔ٹس سے مس ” ہی رہا کیونکہ حکومت نے ”کبھی” دکھاتے ہوئے ”سجی ” عوام کے جڑ دی ۔اس پر کوئی نوٹس ہی نہیں لیا جا سکا فرق شائد حکومتوں کا تھا۔
یہ ریٹس حکومت وقت نے عدلیہ کی بار مخالفت سے بچنے کے لئے نیپرا کے ہاتھوں نافذ العمل کروا دیئے۔ نومبر 2013 کے بجلی کے ریٹس دسمبر 2013 سے بجلی کے ریٹس 1-100 یونٹس 5.790 روپے 1-100 یونٹس 5.790 روپے 101 200 8.110 روپے 101-200 08..110 روپے 201-400 12.330روپے 201-300 12..090روپے 401 سے اوپر 15.070روپے 301-700 16.000روپے 701 سے اوپر 18.000روپے میٹر ریڈر جن کے خون آشام ناخن پرانے میٹروں کی گراریاں پیچھے کی جانب گھما کر مزید تیز ہو جاتے تھے ڈیجیٹل میٹر آنے کی وجہ سے بیکار ہو رہے تھے اور وہ اس بات پر گزارہ کر رہے تھے کہ گرمی گزرتی تھی تو سردیوں میں بجلی کے میٹر کو ناکارہ قرار دے کر اپنی کرپشن کو چھپا لیتے تھے۔
ان کا یہ سب کیا دھرا لائن لاسز کے کھاتے میں چلا جاتا تھا۔ مبینہ اطلاعات کے مطابق میٹر ریڈر حضرات کو ان نئے ریٹس نے ایک نئی زندگی عطا کر دی ہے اور ”سیف اینڈ ہلدی ” کرپشن نے ان پر ”عنایات” کی بارش کر دی ہے ۔مبینہ اطلاعات کے مطابق ان نئے ریٹس کی بدولت میٹر ریڈر حضرات صارف کے بجلی کے میٹر کو ”لیول ” پر رکھنے کا ماہانہ طے کر رہے ہیں چونکہ تین سو یونٹس تک ریٹس مناسب ہیں اس کے بعد 301یونٹس سے 700یونٹس اور سات سو یونٹس سے اوپر تو صارف کا معاشی قتل عام شروع ہو جاتا ہے۔
Corruption
کرپشن کی اس نئی جنگ سے نپٹنے کے لئے واپڈا کو سوئی گیس ڈیپارٹمنٹ کی طرح فوٹو میٹر ریڈنگ کی جانب بڑھنا چاہئے تاکہ واپڈا کے میٹر ریڈر حضرات کی کچی پنسل سے کی جانے والی بوگس میٹر ریڈنگ کسی محنت کش کو خود سوزی پر مجبور نہ کر دے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بجلی مہنگی بن رہی ہے تو مہنگی ہی ملے گی اس سلسلے میں حکومت وقت ،نیپرااور جناب عابد شیر علی سے اتنی گزارش ہے کہ کرپشن کے اس نئے محاذ کو روکنے کے یونٹس وائز ریٹس دوبارہ بحال کئے جائیں جس صارف نے 301یونٹس خرچ کئے ہیں اسے ایک یونٹ کی سزا دی جائے ناکہ اس کی گردن ہی مروڑ دی جائے ۔حکومت کو بھی بجلی کے بل پر موجود مختلف انواع کے ٹیکسز کی مد میں عوام کو ریلیف دینا چاہئے حکومت اگر صرف جی ایس ٹی کی مد میں ہی اگر سپیشل رعایت دے تو بلکتی عوام کے دکھوں کا کچھ مداوا ہو سکتا ہے۔