اللہ تعالیٰ اتنا رحیم وکریم ہے کہ اپنے بندے کوہر حال میں نوازتا ہے۔ اب بندے کام ہے کہ وہ ہرحال میں اپنے رَب تعالیٰ کا شکرکرے اور حکم بجالائے۔ کہہ دوکہ میری سب عبادتیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہیں، جس کا کوئی شریک نہیں۔ جو تمام کائنات کا خالق ومالک اور رازق ہے ۔جو کسی کا نہیں مگر سب کا ہے۔ جو میری جان پر ظلم نہیں کرتا، جو میرے لیے آسانیاں پیدا فرماتا ہے، جو آسمان سے پانی برساتاہے، جو زمین پھاڑ کر میرے لیے اناج اُگاتا ہے ،جورحیم بھی ہے اور کریم بھی، بے شک سب تعریفیں اللہ تالیٰ ہی کے لیے ہیں۔
میرا رب تو تعریف کے قابل ہے لیکن میری اوقات نہیں کہ اس ذات پاک کی تعریف کرسکوں۔کائنات کی سب مخلوقوں میں سے انسان اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے لیے کائنات میں بے تحاشہ نعمتیں پیدا فرمائیں ہیں، جن کا شمار بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اللہ والے کہتے ہیں کہ اگرانسان کو طاقت ملے اور اس کائنات کے رنگوں میں اس صورت پاک کو دیکھ پائے جو ہر جگہ موجود ہے تو قسم پیدا کرنے والے رَب کی اسی جگہ ساکت ہو جائے اور دیکھ کر پہچان بھی لے توساری زندگی سجدے میں گزار دے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کتنی محبت کرتا ہے یہ جاننا انسان کے بس سے باہر ہے ۔انسان بس اتنا سمجھ لے کہ انسان کا رشتہ اپنے خالق سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اور انسان اس کا مملوق، اللہ تعالیٰ معبود ہے اور انسان اس کا عبد، اللہ تعالیٰ آقا ہے اور انسان اس کا بندہ اور غلام بے دام، غلام کاکمال یہ ہے کہ اس کا آقا اس سے خوش ہو مملوق کے لیے سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اسے مالک کی خوشنودی حاصل رہے۔
عاشق کو اپنے معشوق کی راہ میں لٹ کر بھی ایک لطف آتا ہے اور محب اپنے محبوب کے لیے کھوکر بھی پانے کی لذت محسوس کرتا ہے۔ اسی محبت غلامی اوربندگی کے احساس کو عملی پیکر دینے کے لیے عبادت کے طریقے مقرر کیے گئے۔ اسلام میں عبادت کے جو طریقے مقرر کیے گئے ہیں۔ان میں قدم قدم پر اپنی بندگی ،نیستی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور شیفتگی کا اظہار ہے۔نماز کی کیفیت کو دیکھئے کہ غلام اپنے آقا کے سامنے نگاہ نیچی کیے ہوئے ہاتھ باندھ کر کھڑاہے۔ بار بار اپنے رب کی کبریائی کا نعرہ لگاتا ہے۔ کبھی کمر تک جھکتا ہے۔ کبھی نگاہ جھکائے دوزانو بیٹھتا ہے۔
کبھی اپنی پیشانی زمین پر رگڑتا ہے۔زکوٰة دیتا اپنی ذات اور اپنے مال پرخدا کی حکومت کا اعتراف کرتا ہے، روزہ، حج بھی خدا کی بندگی ہے۔ لیکن اس میں خوف سے زیادہ اپنے مالک کی محبت کا اظہار ہے۔ روزہ دار کو دیکھئے بھوکا ہے، پیاسا ہے، دھوپ کی تمازت اور موسم کی شددت ہے۔ لیکن خداکی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے سب کچھ برداشت کرتا ہے۔ روزہ گویا اللہ تعالیٰ سے کمال محبت اور نفس سے رشتہ توڑنے سے عبارت ہے۔
Itqaaf
لیکن بھوکے پیاسے رہنے کے باوجود روزہ کی حالت میں گھر سے کاروبار اور لوگوں کے ساتھ تعلق باقی رہتا ہے۔ محبت کا اوج کمال یہ ہے کہ آدمی ان تعلقات کو بھی خدا کے تعلق کے سامنے قربان کر دے۔ اس کے لئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میںایک اور عبادت رکھی گئی ہے جسے اعتکاف کہتے ہیں۔روزہ سال میں ایک مرتبہ پورے ایک مہینے تک ہروقت یاد دلاتا رہتا ہے۔کہ روزے میں بے شمار حکمتیں ہیں۔ اس کی تہ میں خُدا کا خوف ہے۔ اللہ تعالی کے حاضرو ناظر ہونے کا یقین ہے۔
آخرت کی زندگی اور اللہ تعالیٰ کی عدالت پرایمان ہے۔روزے کی حکمتوں کا شمار کرنا تو بہت مشکل ہے لیکن روزے کاانعام اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ۔ اعتکاف کے معنی ٹھہرنے، پوری قوت سے کسی چیز کا ساتھ پکڑے رہنے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایسی مسجد میں روزہ کے ساتھ قیام پذیر ہو جانے کا ہے۔ جس مسجد میں پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہو۔ گویا اعتکاف اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پرسر رکھ دینے اور خدا کے دامن رحمت سے چمٹ جانے کا نام ہے۔جیسے بندہ اب اپنی مراد حاصل کئے اور منزل مقصود کو پائے بغیراس در کو نہیں چھوڑے گااوریہ مکمل حوالگی، خود سپردگی کا اظہار ہے۔
اسی لیے رمضان المبارک کے تیسرے یعنی آخری عشرے کے اعتکاف کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے معتکف کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے بچارہتا ہے، وہ اعتکاف سے باہر جو نیکیاں انجام دیتا، وہ نیکیاں بھی اس کے نام لکھ دی جائیں گی۔ حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ کو اعتکاف کا اس قدر اہتمام تھا کہ آپ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم ہرسال رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اور جس سال وفات ہوئی اس سال دوسرے اور تیسرے دونوں عشروں کا اعتکاف فرمایا۔
Muhammad S.A.W.W
ایک سال آپۖ اعتکاف نہ فرما سکے تو آپۖ نے رمضان کے بدلہ شوال میں دس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ اعتکاف کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں۔ نفل، سنت اور واجب، اعتکاف نفل کے لئے نہ روزہ ضروری ہے اور نہ وقت کی قید ،صرف اعتکاف کی نیت ہونی چاہئے۔ تھوڑی دیر کے لئے بھی اعتکاف کی نیت سے مسجد میں قیام کرلیا جائے تونفل اعتکاف ہوجائے گا۔ دوسری صورت واجب اعتکاف کی ہے۔ اعتکاف واجب ہونے کی دوصورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اعتکاف کی نذر ہو، دوسرے یہ کہ ایک دن یا اس سے زیادہ نفل اعتکاف کی نیت سے اعتکاف شروع کیا جائے۔
لیکن مدت پوری ہونے سے پہلے اسے توڑ دیا تو اب جتنی مدت پوری کرنے کی اس نے نیت کی تھی شروع کرنے کے بعد توڑدینے کی وجہ سے اتنے دنوں کااعتکاف واجب ہوجائے گا۔اعتکاف واجب کے لئے روزہ ضروری ہے ۔اس لئے کہ اعتکاف روزہ کے ساتھ ہی ہے ۔ تیسری صورت جو اعتکاف کی اصل صورت ہے ،وہ اعتکاف سنت ہے۔ اعتکاف سنت رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے ۔یہ سنت علی الکفایہ ہے۔
یعنی اگر شہر کے کچھ لوگوں نے اعتکاف کر لیا تو ثواب تو اعتکاف کرنے والے کو ہو گا۔لیکن ترک اعتکاف کے گناہ سے سبھی لوگ بچ جائیں گے اور اگر بستی کے کسی بھی شخص نے اعتکاف نہیں کیا توبستی کے تمام لوگ گناہ گار ہوں گے۔ اعتکاف بیسویں روزے سے شروع ہوتا ہے۔ نماز عصر کے بعد مغرب سے پہلے یعنی بیسویں کی افطاری مسجد میں کی جاتی ہے جبکہ آخری روزہ افطار کرکے اعتکافی بعد نماز مغرب اعتکاف سے فارغ ہوتے ہیں۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com .03154174470