اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ایف آئی اے اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی مشترکہ ٹیم بڑی ہی سرگرمی کے ساتھ ارب پتی جہانگیر ترین کے معلوم اور نامعلوم اثاثوں کی تحقیقات میں مصروف ہے اور اس عمل کے دوران انہوں نے ایسے تمام سرکاری و نجی اداروں سے رابطہ کیا ہے جن کے پاس جہانگیر خان ترین (جے کے ٹی) کی دولت اور کاروبار کا ریکارڈ موجود ہے۔
جے کے ٹی کیخلاف منی لانڈرنگ اور کارپوریٹ فراڈ کے الزامات کے تحت تقریباً 19؍ حکام اور نجی اداروں کو باضابطہ طور پر نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ نوٹس جاری کرتے وقت شوگر کمیشن 2020ء کی انکوائری رپورٹ کو مدنظر رکھا گیا ہے جو معلومات طلب کی گئی ہیں ان میں تقریباً جے کے ٹی اور ان کے ارد گرد موجود لوگوں کی ممکنہ طور پر ہر ملکیت شامل ہے۔
ایسے افراد میں ان کے اہل خانہ اور اہم ملازمین شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نوٹسز میں جے کے ٹی سے وابستہ 22؍ افراد اور کمپنیوں کا ذکر شامل ہے۔ ایف آئی اے / ایس ای سی پی نے تمام بینک اکاؤنٹس، شیئرز، جائیدادوں، کمپنیوں اور ان کا تمام ریکارڈ، آمدنی اور ویلتھ ٹیکس کے ریٹرنز، آؤٹ ورڈ ریمیٹنس، فکسڈ ڈپازٹ، کریڈٹ کارڈز، رننگ فنانس، لاکرز کی تفصیلات وغیرہ شامل ہیں۔
جن 22؍ افراد اور کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں جہانگیر ترین، علی خان ترین، مسز آمنہ ترین، مریم ترین سیٹھی، مہر ترین، سحر خان ترین، پرنسلی جیٹس، یونیورسل برادرز، عین ٹریڈرز، الکریم انٹرنیشنل ٹریولز، محمد ردیق، مقصود احمد مالہی، ولید فاروقی، رانا نسیم، سید احمد محمود، سید مصطفیٰ محمود، حسن منیب، السراج ویلفیئر، رانا عذیر نعیم، بلال جبار، سجاد احمد فخری اور عامر وارث شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، چیئرمین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر ملتان، ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان، ڈپٹی کمشنر لاہور، منتظم بحریہ ٹاؤن کراچی اور منتظم بحریہ ٹاؤن لاہور سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی حد، نجی یا کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں ان 22؍ افراد اور کمپنیوں کے نام پر موجود ملکیت کی تفصیلات پیش کریں۔
17؍ اگست کو انہیں بھیجے گئے خط میں ان سے کہا گیا ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے سیکشن 25؍ کے تحت مذکورہ بالا افراد یا کمپنیوں کی ملکیت میں آنے والی غیر منقولہ جائیدادوں کی تفصیلات پیش کریں۔
چیف کمشنر (آئی آر)، لارج ٹیکس پیئر یونٹ لاہور سے بھی کہا گیا ہے کہ ان 22؍ افراد یا کمپنیوں کے سالانہ انکم ٹیکس ریٹرنز اور ویلتھ ٹیکس کے گوشواروں کی تفصیلات پیش کریں۔ اسٹیٹ بینک سے بھی رابطہ کیا گیا ہے کہ ان افراد یا کمپنیوں سے جڑی ’’آؤٹ ورڈ فارن ریمیٹنس‘‘ کی تفصیلات پیش کی جائیں جو انہوں نے پاکستان میں قائم کسی کمرشل بینک یا ایس بی پی میں رجسٹرڈ کسی ایکسچینج کمپنی کے ذریعے کر رکھی ہوں۔
اسٹیٹ بینک کے ڈائریکٹر جنرل فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) سے کہا گیا ہے کہ وہ مشکوک لین دین کے حوالے سے تمام ممکنہ ایس ٹی آرز کی تفصیلات پیش کریں جو 2010ء سے لیکر اب تک کی ہوں اور جن کا تعلق جے ڈبلیو ڈی شوگر ملز، اے ٹی ایف مینگو فارمز، فاروقی پلپ ملز، جے کے فارمنگ سسٹمز لمیٹڈ، جہانگیر خان، علی خان ترین، محمد رفیق، مہر ترین، سحر ترین، رانا نسیم، مقصود احمد مالہی، سید احمد محمود، سید مصطفیٰ محمود، عامر وارث، پرنسلی جیٹس، اے کے ٹی شوگر ملز، جے کے ڈیریز، ولید فاروقی، الائنس شوگر ملز پرائیوٹ لمیٹڈ، آر وائی کے ملز لمیٹڈ، ایکس کیپیٹل لمیٹڈ، کیسکیڈ ٹیک پرائیوٹ لمیٹڈ، اسد حسین، صفا اسد، مونس الٰہی، زہرہ علی الٰہی، منیر حسین، واجد احمد خان بھٹی، تہمینہ صادق جاوید، مخدوم عمر شہریار یا کسی ایسی کمپنی یا شخص سے ہو جس کا ذکر بالائی سطور میں کیا گیا ہے۔
مختلف بینکوں کے 29؍ سربراہان کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن میں ان افراد کے تمام بینک اکاؤنٹس بشمول غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس، فکسڈ ڈپازٹس، کریڈٹ کارڈز، رننگ فنانسز وغیرہ کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔
لاکرز کی معلومات بھی مانگی کی گئی ہیں۔ چیئرمین ایس ای سی پی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ فاروقی پلپ لمیٹڈ کی معلومات بھیجیں جن میں 1) جے ڈبلیو ڈی کی جانب سے فاروقی پلپ میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے متعلق ایس ای سی پی کی جانب سے کرائے جانے والے آڈٹ، کارروائی یا انکوائری کی تفصیلات شامل ہوں۔
2) فاروقی پلپ لمیٹڈ یا جے ڈبلیو ڈی سے جڑی کوئی اور انکوائری، کارروائی یا آڈٹ جو ایس ای سی پی نے شروع کرایا ہو اور آیا کوئی اقدامات کیے گئے ہوں۔
3) کوئی اسپیشل آڈٹ کرایا گیا ہو یا کرانے کی ہدایت کی گئی ہو، 4) فاروقی پلپ لمیٹڈ کے سالانہ (آڈٹ شدہ) گوشوارے کی تفصیلات شامل ہوں۔
چیئرمین ایس ای سی پی سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ مندرجہ ذیل کمپنیوں کے انکارپوریشن سرٹیفکیٹ، کاروبار کے آغاز کے سرٹیفکیٹس، تازہ ترین فارم اے (اینوئل ریٹرن آف کمپنی)، فارم 28، 29 جن پر گزشتہ پانچ سال کی معلومات شامل ہوں، اور سالانہ فنانشل گوشوارے شامل ہوں۔
کمپنیوں کے نام یہ ہیں: فاروقی پلپ لمیٹڈ، جے ڈبلیو ڈی شوگر ملز لمیٹڈ، اے ٹی ایف مینگو فارمز لمیٹڈ، ڈہرکی شوگر ملز پرائیوٹ لمیٹڈ، جے کے ڈیریز پرائیوٹ لمیٹڈ، پرنسلی جیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ، یونیورسل برادرز پرائیوٹ لمیٹڈ، عین ٹریڈرز، السراج ویلفیئر، جے کے شوگر ملز پرائیوٹ لمیٹڈ، جے کے ایگری فارمز اور اے کے ٹی شوگر ملز۔ چیئرمین ایس ای سی پی سے کمپنیوں کے ڈائریکٹرز اور فہرست میں بتائے گئے 22؍ افراد کے اثاثوں، شیئرز، یونٹس، ڈیبنچرز وغیرہ کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔
بینک آف پنجاب اور فیصل بینک سے سربراہان سے بھی رابطہ کیا گیا ہے کہ اور ان سے جے کے فارمنگ سسٹمز کیلئے جے ڈبلیو ڈی شوگر ملز یا کسی اور ادارے کو دیے گئے قرضہ جات کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں، ساتھ ہی قرضہ جات کی منظوری کی دستاویزات، خط و کتابت، ای میل کی رابطہ کاری، ایولیوشن رپورٹس کی نقول، رہن رکھی گئی چیزوں کی تفصیلات وغیرہ بھی طلب کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کو دیے گئے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی تفصیلات، لائف ٹائم بینک اسٹیٹمنٹ، لون / کریڈٹ فیسلٹی بھی طلب کی گئی ہے۔
سینٹرل ڈپازٹری کمپنی کراچی کے چیف ایگزیکٹو افسر سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ان 22؍ افراد و کمپنیوں کی سی ڈی سی کی سرگرمیوں اور سی ڈی سی کی بیلنس رپورٹ پیش کریں اور ان افراد اور کمپنیوں کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری کا بھی بتائیں جن میں انہوں نے خود کو نامنی یا پھر جوائنٹ اکاؤنٹ ہولڈر ظاہر کیا ہے۔
جے ڈی ڈبلیو کے چیف فنانشل افسر محمد رفیق کو جاری کیے گئے ایک علیحدہ طلبی نوٹس میں ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کی مشترکہ ٹیم نے جے ڈی ڈبلیو سے جڑے تمام اکاؤنٹس، لیجرز اور واؤچرز کی اصل کتب طلب کی ہیں جن میں 2017ء سے اب تک مسٹر عامر وارث کو دی گئی نقد رقم کی تفصیلات موجود ہوں، اور ساتھ ہی کمپنی کی جانب سے عامر وارث کے ذریعے 2017ء سے اب تک کی جانے والی خرید و فروخت کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔