اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کی نااہلی برقرار رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی اہلیت کے فیصلے کیخلاف فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست خارج کردی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی اور جہانگیر ترین کی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی۔
حنیف عباسی نے عمران خان کی اہلیت سے متعلق فیصلے پر فل کورٹ تشکیل دینے اور جہانگیر ترین نے اپنی نااہلی کے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی تھی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر 15 دسمبر 2017 کو فیصلہ سناتے ہوئے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کو اہل جب کہ جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا تھا۔
آج سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نے وکیل اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ آپ کن گراؤنڈز پر چاہتے ہیں کہ فل کورٹ بیٹھے جس پر وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نااہلیت کیس میں عدالت نے قرار دیا یہ کوئی “اسٹرکٹ لائبیلیٹی” کا کیس نہیں جبکہ پاناما بینچ نے اسی نوعیت کے کیس میں نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔
اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید نااہلیت کیس میں بینچ کے رکن نے کہا جو سوالات ہیں ان کے لیے فل کورٹ بنائی جائے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ ‘کیا آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں’۔
اکرم شیخ نے کہا معزز جج نے کوئی اختلافی فیصلہ نہیں دیا تھا بلکہ اہم نکات اٹھائے تھے اور باقی دو ججز نے بھی جسٹس فائز عیسیٰ کی رائے سے اختلاف نہیں کیا تھا، دیگر ججز نے قرار دیا تھا کہ الیکشن سر پر ہے اس لیے فوری یہ معاملہ نہیں دیکھا جا سکتا۔
اکرم شیخ کا کہنا تھا اخبارات بھی اس حوالے سے اداریہ لکھ چکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم اخبارات کے کہنے پر ایکشن نہیں لے سکتے۔
اکرم شیخ کے دلائل کے دوران فاضل ججز نے مشاورت کے بعد نااہلیت کے کیسز کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست خارج کردی۔
اس موقع پر وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میزان عدل مختلف لوگوں کے لیے مختلف نہیں ہو سکتا، جناب چیف جسٹس آپ نے اہم معاملات پر پہلے بھی بڑے بینچ بنائے ہیں، درخواست بے شک خارج کر دیتے لیکن آپ میرے دلائل تو سن لیتے۔
چیف جسٹس نے اکرم شیخ کو کہا آپ کے دلائل سن کر ہی فیصلہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست بھی مسترد کردی جس کے بعد وہ پارلیمانی سیاست سے باہر ہوگئے اور کوئی بھی عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتے۔
عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے ایک موقع پر جہانگیر ترین کے وکیل سکندر مہمند جذباتی ہوگئے اور تیز آواز سے بولنا شروع ہوئے۔
عدالت نے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی آواز نیچے رکھیں اور چیخیں مت، عدالت کے احترام کو مدنظر رکھیں جس پر سکندر بشیر مہمند نے کہا معافی چاہتا ہوں مجھے اونچا بولنے کی عادت ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کو کہا کہ ہم کیس کی دوبارہ سماعت نہیں کر رہے ہیں، اس وقت آپ کو پوچھتے رہے لیکن آپ نے ٹرسٹ ڈیڈ بھی بہت آخر میں دی، اب لہر یہ ہے کہ لیڈر پیسہ ملک میں لائیں، باہر سے پیسہ ملک میں لایا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے موکل اتنے بڑے لیڈر ہیں کبھی انہوں نے سوچا کہ یہ پیسہ ملک میں واپس آنا چاہیے، جب فیصلہ پڑھ رہا تھا کہ آپ نے کمپنی اور شیئر بھی خریدے، کوئی عوامی عہدے دار ایسی مشکوک ٹرانزکشن کیسے کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دینے کا 27 دسمبر 2017 کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ان کی نظرثانی درخواست مسترد کردی۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے حنیف عباسی کی درخواستوں پر 250 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ تمام شواہد کا جائزہ لیا گیا، عمران خان نیازی سروسز لمیٹڈ کے شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر نہیں تھے اور انہوں نے جمائما کے دیے گئے پیسے بھی ظاہر کیے جب کہ عمران خان نے فلیٹ ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کر دیا تھا۔
عدالت نے جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دیتے ہوئے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ جہانگیر ترین نے اپنے بیان میں مشکوک ٹرمز استعمال کیں اور صحیح جواب نہ دینے پر انہیں ایماندار قرار نہیں دیا جاسکتا۔