ملک میں قانون پر عملدرآمد کروانا ہو تو اس کے لیے ایک ہی ادارہ ہے پولیس جس کے اندر سب سے زیادہ لاقانونیت ہے پولیس افسران اور ملازمین کے اندر بھی اختیارات کی رسہ کشی چل رہی ہے عوام بیچاری تو کسی کھاتہ میں ہی نہیں یہ سب کچھ ابھی سے شروع نہیں ہوا بلکہ محکمہ پولیس کو اس سطح پر لانے میں بہت عرصہ لگا خیر اس پر بات پھر کبھی تفصیل کے ساتھ ہو گی ابھی تو پولیس کے ان اہلکاروں کی مجبوریاں لکھ رہا ہو جو وہ مجھے بھجواتے رہتے ہیں ان میں پنجاب پولیس،جیل پولیس اور ریلوے پولیس کے اہلکار شامل ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان تینوں پولیس ملازمین کا گذر بسر ایمانداری سے ناممکن ہے صبح سے شام تک وردی پہنے یہ کانسٹیبل مظلوم ہیں اور ظالم بھی سب سے زیادہ یہی طبقے والے ہیں مظلوم وہ طبقہ ہے جو ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی پوری کرتا ہے رشوت کو واقعی گناہ سمجھتا ہے اور جو تنخواہ ملتی ہے اسی کے اندر رہ کر اپنا گذارا کرتے ہیں۔
اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھاتے ہیں سرکاری ہسپتالوں سے علاج کرواتے ہیں ساری عمر موٹر سائیکل پر یا پیدل گذار دیتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ بچے جوان ہو جاتے ہیں خواہشات بڑھتی ہیں کچھ تو اپنا مکان بیچ کر اپنی ضروریات پوری کرلیتے ہیں اور کچھ اپنے بچوں کی خواہشوں کا گلا اپنی ریٹائرمنٹ تک گھونٹ کر رکھتے ہیں پنجاب پولیس کے جوان پھر ایک اچھی اور معقول تنخواہ وصول کرتے ہیں جبکہ محکمہ جیل اور ریلوے کی پولیس تو بلکل ہی سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے ترقی کا نام ونشان نہیں اور بچے اعلی تعلیم سے محروم رہتے ہیں محکمہ جیل اور ریلوے میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہونے والے ریٹائرمنٹ تک کانسٹیبل ہی رہتے ہیں جبکہ ہمارے اور بہت سے ایسے ادارے موجود ہیں جہاں معمولی سی نوکری پر آنے والے بعد میں گریڈ 18اور 19 تک پہنچے ہوئے ہیں جبکہ کچھ افراد تو ان سے بھی بازی لے گئے ۔
خیر یہ ایک لمبی بحث ہے کہ کس نے کتنا مال بنایا اور کیسے ترقیاں حاصل کی نہیں یقین تو مال روڈ پر موجود الحمرا آرٹ کونسل کو چیک کرلیں کہ پانی والی ٹینکی کے نیچے سونے والا آج کروڑوں روپے کا مالک کیسے بن گیا خیر اس پر بات پھر کبھی سہی ابھی تو پولیس اہلکاروں پر ہی رہونگا کہ وہ کس طرح اپنی زندگی گذار رہے ہیں ان تینوں محکموں سے عوام بھی اتنی ہی تنگ ہے جتنے یہ اہلکار اپنے افسران سے تنگ ہیں مگر کبھی کبھی کوئی اوپر افسر اچھا آجائے تو نیچے والوں کی تقدیر بدل جاتی ہے ابھی کچھ عرصہ قبل کیپٹن (ر) عارف نواز خان جوتہ پنجاب پولیس کے آئی جی رہے جنہوں نے پولیس کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی فائدہ سوچا انہوں نے بہت سی تبدیلیاں کی پولیس تھانوں کی حوالاتوں کے اندر کیمرے لگوائے تاکہ بے گناہ افراد کو چھتر پریڈ سے بچایا جاسکے بے گناہ سے مراد ایسے افراد جو معمولی جرائم کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں اور پھر پولیس والے ان پر اپنی تمام مشقیں آزماتے تھے جبکہ بڑے ڈاکوں تو پہلے بھی آزاد تھے اور اب بھی ہیں ابھی کچھ عرصہ قبل چینی کا ایک اسکینڈل بہت چلا جس میں مافیاز نے اربوں روپے کما لیے ہمارے جنوبی پنجاب کے رہنے والے بلخصوص رحیم یار خان کے باسی مخدوم ٹوکے اور انکی لوٹ مار کو بخوبی جانتے ہونگے خیر بات ہورہی ہے پولیس کی شوگر مافیا پر بھی بہت کچھ ہے اسے بھی کسی اور وقت پر چھوڑدیتے ہیں۔
پنجاب پولیس میں عارف نواز نے جو کارنامے سر انجام دیے ہیں وہ شائد ہی کسی اور نے کیے ہوں حوالات کے اندر کیمروں کی وجہ سے عام آدمی کی تشدد سے جان چھوٹ گئی اسکے علاوہ فرنٹ ڈیسک کا قیام عمل میں لایا جس درخواست پر مہینہ مہینہ مقدمہ درج نہیں ہوتا تھا اسی درخواست پر فوری مقدمات درج ہونے لگے پولیس ملازمین کے الائنسز میں اضافہ کروایا ڈیوٹی ٹائم دیا افسران کو تھانے کا پابند بنایا اور ملازمین کی ترقیوں کے لیے کورسز شروع کروائے اب وہی عارف نواز صاحب ریلوے پولیس میں آئی جی ہیں اور انکے اہلکاروں کی تنخواہ سب پولیس والوں سے کم ہے یہاں پر انہوں نے کام شروع کردیا ہے جس طرح وہ پنجاب پولیس کے شہدا کو نہیں بولے تھے اسی طرح انہوں نے ریلوے پولیس کے شہدا کے لیے بھی یادگار شہدا بنا دی جہاں ہم نے بھی دعا کی مجھے امید ہے کہ وہ ریلوے پولیس کو بھی پنجاب پولیس کے برابر لانے کے لیے اپنی بھر پور کوششیں کریں گے رہی بات جیل پولیس کی وہ پیسے نہ کمائیں اور اوپر نہ دیں تو انکی ڈیوٹیاں نہیں لگتی یہاں پر جتنا اہلکار زیادہ کاریگر ہوگا اسے اتنی ہی اچھی ڈیوٹی ملے گی خیر سے آجکل جیلوں کے آئی جی مرزا شاہد سلیم بیگ ہیں ان سے پہلے میاں فاروق نذیر ہوتے تھے جنہوں نے جیلوں کے اندر قیدیوں کی سہولت کے لیے بنک قائم کیا تھا،پی سی او لگوائے تھے ٹھنڈے پانی کے لیے واٹر فلٹریشن پلانٹ لگائے تھے مگر جیل ملازمین کی کرپشن وہ بھی ختم نہیں کرسکے۔
موجودہ آئی جی بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں مگر کچھ جیل سپرنٹنڈنٹ ایسے بھی ہیں جنہوں نے جیلوں کے اندر ملزمان کو مکمل چھوٹ دے رکھی ہے اکثر ملزمان تو جیل سے اپنے دفتروں کو بھی باقاعدگی سے جاتے ہیں تاریخوں پر جانے کے لیے اپنی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں ایک محاورہ ہے کہ کھلے کھانا ننگے نہانااس کا مشاہدہ ہماری جیلوں میں بخوبی کیا جاسکتا ہے امید ہے کہ مرزا صاحب اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے جیل ملازمین کی تنخواہوں سمیت باقی کے معاملات بھی حل کرلیں گے جیل پولیس کے حوالہ سے بہت سی باتیں لکھنا تھی مگر پنجاب پولیس کے جوان کا ایک خط بھی شامل کرنا ضروری ہے جن کا کہنا ہے کہ سپاہی سے انسپکٹر تک محکمہ پولیس میں شامل ہے؟ آجکل سوشل میڈیا اور حکومتی حلقوں میں ملازمان کی تنخواہ میں اضافے اور کچھ محکمہ کو سپیشل الاونس دینے کی سمری کی باز گشت ہو رہی ھے جن محکمہ جات کو سپیشل الاونس دیا جا رہاہے ان میں پولیس شامل نہیں کیونکہ بقول حکومت کے پولیس پہلے سے خاطر خواہ الاونس لے رہی ہے ا س میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے کچھ ماہ پولیس کے ایگزیٹو الاونس میں 150 گناہ اضافہ کیا گیا جس سے ڈی ایس پی سے لے کر آئی جی تک کی تنخواہ میں 60 ہزار سے لیکرایک 1 لاکھ تک اضافہ ہوا یہ ان پولیس اہلکاران کی تنخواہ میں اضافہ ہوا جن کو حکومت گاڑی بنگلے فنڈ اور نوکر پہلے سے ہی دے رہی ہے اور جن کے پاس کو ئی ایک سہولت ہی نہیں وہ ہے سپاہی سے لیکر انسپکٹرتک ہیں جن کو یہ کہ کر ریجیکٹ کر دیا گیا کہ جب پہلے ہی انکو کوئی مراعات یعنی گھر سواری حاصل نہیں انکو الاونس دینے کا کیا فائدہ اور کام کے سلسلہ میں بھی صرف گزٹڈ افسران سے بات ہوتی ہے۔
لہذا یہ خوش ہیں الاونس سے اور نیچے والوں کی ہمیں ضرورت نہیں اور جب بھی مختلف محکمہ جات کی تنخواہ کے بارے اجلاس ہوتا ہے تو نمائندگی یہ ہی شریف اہلکار کرتے ہیں اور یہ بڑی سادگی سے کہہ دیتے ہیں کہ پولیس کی تنخواہ بڑھ چکی ہے یہ سچ کہتے ہیں ان کی نظر میں سپاہی سے لیکر انسپکٹرتک پولیس میں شامل ہی نہیں انکو صرف یہ جانور نظر آتے ہیں جن سے صرف اور صرف کام لیا جاتاہے اور غلطی پر سزا دی جاتی ہے ترقی یافتہ ممالک میں جانوروں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں چلو انہیں انسان نہیں سمجھتے نہ سمجھیں کم ازکم جانور ہی سمجھ کر تھوڑا سا بھلا کر دیں کیونکہ بچے اور ماں باپ تو جانوروں کے بھی ہوتے ہیں اور ضرورتیں بھی ہوتی۔میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب پولیس کے جوان کی یہ باتیں اس وقت جیل پولیس اور ریلوے پولیس کے ہر اہلکار کی آواز ہے اس وقت تینوں پولیس سروسز کے الگ الگ آئی جی بھی موجود ہیں تینوں عوام دوست اور پولیس اہلکاروں کے خیر خواہ بھی ہیں تینوں اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے قریب ہیں اور جاتے جاتے اپنے اہلکاروں کے لیے ایسے کام کرجائیں کہ ہر پولیس ملازم اپنے ذاتی گھر اور گاڑی کا مالک بن جائے اپنے بچوں کو بھی اعلی سکولوں میں پڑھا سکے اپنے والدین کا اچھے ہسپتال سے علاج کرواسکے وہ سب آپ کے ساتھی ہیں آج سے نہیں جب سے آپ نے اس محکمہ میں آنکھ کھولی کچھ لمحوں کیلیے اپنے آپ کو انکی جگہ پر لاکر دیکھیں پھر آپ کو اندازہ اور احساس ہوگا آپکے ساتھی آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں حکومت بھی انہیں یہ تمام مراعات دینا چاہتی ہے پنجاب حکومت ہر فرد کو غربت سے نکال کر خوشحال زندگی دینا چاہتی ہے آپ بھی عثمان بزدار کے بازوں بنیں۔