تحریر : علی رضا جن کی شاعری پڑھتے ہوئے صرف مجھ پر نہیں ہر کسی پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔ ہر شخص ان کی شاعری کا دیوانہ ہے، جن کی شاعری میں ملک و قوم کے لیے ایک جذبہ ہے، ایک تڑپ ہے ۔۔۔وہ حبیب جالب ہیں۔حبیب جالب ایسا شاعر ہے جس نے کبھی کسی کے اگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور ملک و قوم کو بھی گھٹنے نہ ٹیکنے کا پیغام دیا۔پاکستان کے عوامی و انقلابی شاعر حبیب جالب24مارچ 1928ء کو ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔یہ وہ شاعر ہیں جو ہمیشہ عوام کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔
حبیب جالب کو کئی مشکلات کا سامنا رہا ،لیکن انہوں نے اپنا سفر اور جدوجہد جاری رکھی اور ظالم طبقے کے خلاف اپنی آوازبھر پور انداز میں اٹھاتے رہے۔حتٰی کہ جیل میں بھی حکمران طبقوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ان کی شاعری میں جو بات ہے وہ کسی اور شاعر میں موجود نہیں۔اس لئے عوامی اور انقلابی شاعری میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں کو جگایا کہ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف کب اٹھو گے ،جنہوں نے تمہارا حق چھینا ہے۔ جو غریبوں کے ٹیکس پر پل رہے ہیں اورغریبوں کو لوٹ رہے ہیں۔اگر آپ اس ماحول میں رہ رہے، جہاں لوگوں پر ظلم و ناانصافی ہورہی ہے لیکن آپ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے بلکہ خاموش اور سوئے رہتے ہیں تو اس کا مطلب آپ جی نہیں رہے ۔اگر ایسے جینے کو جینا کو کہتے ہیں تو ایسا جینا خاک ہے۔
دس کروڑ انسانوں زندگی سے بیگانوں صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے خاک ایسے جینے پر یہ بھی کوئی جینا ہے بے شعور بھی تم کو بے شعور کہتے ہیں
جب حبیب جالب کو ایک فیکٹری میں نوکری ملی توحبیب جالب نے ملوں کی حالتِ زار دیکھ کر یہ اشعار کہے۔اس میں جالب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مزدور جو فیکٹری میں کام کرتا ہے اس کی زندگی بہت کٹھن ہوتی ہے۔ مزدور بے چارہ پورا دن کام کرتا ہے اس کو وقت نہیں ملتا ہمیشہ کام میں لگا رہتا ہے لیکن ان کی تنخوا معمولی سی ہوتی ہے۔
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں زندگی ڈھل گئی ہے مشینوں میں پیار کی روشنی نہیں ملتی ان مکانوں میں ان مکینوں میں
اس طرح جالب نے قرض کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔ حبیب جالب نے قرض کو بھیک قرار دیتے ہوئے اسے نہ مانگنے کاپیغام دیا ۔ہمارا حکمران طبقہ قرض لے لے کر ملک و قوم پر بوجھ لاد رہا ہے۔ اس لیے حبیب جالب ان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ بھیک نہ مانگواور عوام کوگھٹنے نہ ٹیکنے اوراپنے بل پر چلنے کا درس دیااپنی مدد آپ کرو۔حکمرانوں کو غیرت دلائی کہ کیا ہمیشہ بھیک مانگتے رہوگے؟کب تک غیروں کے آگے جھکوں گے؟کب اپنے بل پر چلنا سیکھو گے؟ یہ کشکول دوسروں کے آگے پھیلانا بند کرو۔اپنی مدد آپ کرو کسی پر آس نہ رکھو۔جس طرح ایک مشہور قول ہے کہ ”خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔”
پاکستان کی غیرت کے رکھوالو !بھیک نہ مانگو توڑ کے اس کشکول کو آدھی کھالو!بھیک نہ مانگو
اپنے بل پر چلنا کب سیکھو گے طوفانوں میں پلنا کب سیکھو گے یہ کہنا تقدیر کا شکوہ کب تک اس کو آپ بدلنا کب سیکھو گے خود اپنی بگڑی تقدیر بنا لو! بھیک نہ مانگو
اس طرح حبیب جالب نے انگریزوں کے آگے نہ جھکنے کا کہا ہے۔ہم ترقی پذیر ممالک میں ہیں لیکن ہم کسی کے آگے ہاتھ پھیلا کر نہیں مانگ سکتے ہیں ہمیں کسی کے نیچے نہیں لگ سکتے بلکہ ہمیں اپنی مدد خود کرکے ترقی کر سکتے ہیں۔
وہ حکمران جو تخت حاصل کرنے کے لیے لوگوں میں مشکلات میں ڈالتا ہے، قتل کرتا ہے، اپنے تخت سے پیار کرتا ہے ۔جالب نے کہا کہ ان کا غرور مٹی میں مل جائے جو تم سے پہلے بھی لوگ آئے تھے ۔وہ بھی تری طرح تھے اپنے آپ کو خدا سمجھتے تھے لیکن آج دیکھو ان سے ان کا تخت چھن گیا ہے جو کل یہاںتخت نشیں تھے آج وہ خاک نشیں ہیں ۔ اس لیے اس پر غرور مت کرو۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتائو وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا آج سوئے ہیں تہہ خاک نجانے یہاں کتنے کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
عوامی شاعر حبیب جالب قوم کے لیے ظالم نظام کے خلاف آخری حد تک لڑتے رہے ،لیکن بیماری کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے 12مارچ1993ء کو ہم سے بچھڑ گئے۔آج یہاں حبیب جالب موجود نہیں لیکن ان کی شاعری موجو دہے۔دل تو کرتا ہے جالب پر لکھتا جائوں لیکن الفاظ زیادہ ہوجائیں گے۔ان کی شاعری انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ان کی شاعری چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ وہ ظالم نظام کا خاتمہ چاہتی ہے۔ وہ قوم دیکھنا چاہتی ہے جو بھیک سے پاک ہو اپنے بل پر چلنا سیکھے اپنی مدد آپ کرے کسی کے آگے گھٹنے نہ ٹیکے جس کے حکمران نیک نیتی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کریں۔حق کے راستے کے درمیان کوئی بڑی دیوار آجائے وہ دیوار پار کر کے مشکلیں برداشت کر کے یہ دیوار گرانی ہے اور اپنے حق تک پہنچنا ہے۔