تحریر: عثمان غنی ایک کھوٹے سکے سے قائد نے کہا تھا ”جب کھرے سکے دشمن کی جیب میں ہوں تو پھر کھوٹے سکوں سے ہی کام چلانا پڑتا ہے”۔ گلی گندی ہو گی تو مکان کو کون صاف کہے گا، جناب! جس کردار پر انگلیاں اٹھتی ہوں اس پر زیب تن بوسکی کے کرتے کو، کون اجلا کہے گا، عارف نے کہا تھا خوف دراصل بری نیت کی تخلیق ہے، نیت کی اصلاح کے بغیر یہ سزا ختم نہیں ہوتی بقول نواب محبت خان دل وجگر دونوں اس نے قتل کیے دے محبت کو خون بہا کس کا مرشد غالب نے ”کسی” کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے کہا تھا ”کارخانہ ہے واں تو جادو کا” بلکہ ایک شاعر نے تو یہاں تک کہہ ڈالا حسن اس کا زبان سے باہر اور لکنت میری زبان میں بھی
مقولہ ہے “Kingship Knows no Kingship” یعنی بادشاہت کو بادشاہت سے بھی سروکار نہیں رہتا، واقعہ جولائی 1947ء کا ہے جب بابائے قوم علالت کی وجہ سے علاج وآرام کی غرض سے زیارت میں موجود تھے، اسی ماہ ایک روز اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان اور سیکرٹری جنرل مسٹر محمد علی اچانک زیارت پہنچ گئے، انکے آنے سے پہلے کوئی اطلاع نہ تھی، وزیراعظم نے معالج(ڈاکٹر الہی بخش)سے قائد کے متعلق آگاہی حاصل کرنا چاہی تو ڈاکٹر نے انہیں کچھ بتانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے محترمہ فاطمہ جناح نے یہاں بلایا ہے، اس لیے وہ اپنے مریض کے متعلق کوئی بات صرف محترمہ کی اجازت سے ہی بتا سکتے ہیں ”جب انکی بات بنائے نہ بنی ”تو محترمہ نے قائد کو وزیراعظم کی آمدکی اطلاع دی تو وہ مسکرائے اور فرمایا ”تم جانتی ہو وہ کیوں آئے ہیں؟ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میری علالت کتنی شدید ہے۔ میں کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہوں۔ انہیں ابھی آنے دو اور ۔۔۔خود دیکھ لینے دو”۔
کہا جاتا ہے کہ قائد کی رحلت کے بعد طالع آزمائوں نے اپنے پنجے گاڑھنا شروع کر دیئے لیکن”تمہید” تو پہلے ہی باندھی جا چکی تھی، بس مضمون کا ”مسودہ” لکھنا درکار تھا اسی لیے قائد کی پہلی دو برسیوں پر محترمہ فاطمہ جناح نے تقریر کرنے سے انکار کر دیا تھا، انکی تقریر سے بہت سے ”آبگینوں” کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ تھا، تیری برسی پر جب محترمہ کو یہ گارنٹی دی گئی کہ مکمل تقریر کا متن نشر کیا جائے لیکن ”تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان چھوٹ جانا” کی طرف تقریر کو سنسر کر دیا گیا، ریڈیو پاکستان کامگر دعویٰ یہ تھا کہ ”بجلی” بند ہو گئی ہے بقول شاعر تم قتل کروہو کہ کرامات کرو ہو” پاکستان کو درپیش مسائل میں(1) انصاف کی فراہمی میں تعطل میرٹ کا قتل عام، احتساب کا نہ ہونا اور کرپشن ۔آج سے چودہ سو سال پہلے نبی پاکۖ نے فرمایا تھا کہ تم میں سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ طاقتور کو چھوڑ دیتے تھے اور صرف کمزور کو سزا دیتے تھے۔ خدا کی قسم اگر حضرت فاطمہ کا بھی یہ جُرم ہوتا تو میں انکے بھی ہاتھ کاٹنے کی اجازت دیتا، کسی بھی معاشرے کے پنپنے کا اندازہ وہاں پر میسر فوری اور سستے انصاف سے کیا جا سکتا ہے جس طرح صرف سچ بولنے سے سچ مکمل نہیں ہو جاتا بلکہ اسکا دوسرا اہم جز سچ سننا ہے۔
Justice
اسی طرح انصاف، احتساب کے بغیر کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔ انصاف اور احتساب آپس میں لازم وملزوم ہیں George Orwell نے کہا تھا All men our equal, but some men an more equal, than othersبد قسمتی سے ہمارے ہاں انصاف ہر طبقے کیلئے اس کے معاشرتی Statusکے مطابق ہے اور ہم انصاف کا عالمی قانون بھول چکے ہیں۔Justice delayed is justice deniedانصاف کا نہ ہونا میرٹ کو بھی پامال کر ڈالتا ہے اور ہم کو انصاف مل بھی جائے تو دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ جب تک سستا، معیاری اور فوری انصاف عوام کو انکی دہلیز تک میسر نہ ہو پائے گا، مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ (2)معیاری تعلیم اور یکساں نصاب کا فقدان بقول حضرت اقبال اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک نہ زندگی ، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ،
کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار معیاری تعلیم پر ہوتا ہے مگر ایسا وطن عظیم میں اب تک ہو نہیں سکا، شہروں میں تعلیمی نظام مختلف ہے وہاں بچے شروع ہی سے انگریزی نامی بلا سے علیک سلیک کرتے ہیں جبکہ دیہاتوں میں رہنے والے بدنصیبوں کو اگر ٹاٹ میسر آ بھی جائیں تو استاد کی موجودگی بڑا سوالیہ نشان رہتی ہے۔ آج ہماری تعلیمی ادارے و یونیورسٹیاں ڈگریاں عنایت فرما رہی ہیں جو صرف تعلیم تک محدود ہیں، نوکریاں شاید ان سے مل جائیں مگر ”علم”فراہم کرنے سے قاصر ہیں جو حسن اخلاق سکھاتا ہے شعور عطا کرتا ہے، معاشرے کا اچھا شہری بناتا ہے، اگر تعلیمی نظام ہی یکساں نہ ہو گا تو کیسے ہم آہنگی وبھائی چارے کو فروغ مل سکتا ہے۔
-3 محکمہ صحت کی خستہ حالی۔ جان ہے تو جہان ہے والا محاورہ تو کسی اور دنیا کے لیے ہیں، ہم پر مگر پورا اترنے سے قاصر ہے، آبادی کئی گناہ بڑھ چکی ہے مگر ہسپتالوں کی تعداد وہی پرانی ہے اور اس میں بھی انفراسٹرکچر نامی چیز کا کوئی نام ونشان نہیں، مریض فرش پر لیٹنے پر مجبور ہیں۔ PMDCپاکستان میڈیکل وڈینٹل کونسل، میڈیکل وڈینٹل کالجوں اور ڈاکٹروں (Practitioners)سے متعلق باقاعدگی سے ضابطہ قانون متعین کرنے اور انکی رجسٹریشن کرنے والا ادارہ ہے، یہ ادارہ بھی سٹیل مل اور پی آئی اے کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش میں مصروف ہے، میڈیکل کا مقدس پیشہ اس وقت کاروبار بن چکا ہے، پاکستان میں میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی تعداد 143ہے جن میں سے 92پرائیویٹ کالج ہیں اور 51سرکاری، 32پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو جلد ہی رجسٹریشن ملنے والی ہے۔ اس طرح پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی تعداد 124ہو جائے گی، دو گناہ سے بھی زائد۔۔۔ سبحان اللہ۔ چارہ گر ہار گیا ہو جیسے اب مرنا ہی دواہو جیسے
Kashmir
-4 مسئلہ کشمیر وخارجہ پالیسی۔نوجوان کمانڈر برھان وانی کے لہو نے مسئلہ کشمیر کو ایک نئی جہت عطا کی ہے عالمی میڈیا نے پہلی دفعہ مسئلہ کشمیر کو اتنی شدت سے کوریج دینے کا آغاز کیا ہے۔ نواز شریف اوفا گئے تو مسئلہ کشمیر پر ایک لفظ بھی منہ سے ادا نہ کر سکے، مودی کی تقریب حلف برادردی میں بھارت گئے تو اداکارائوں سے ملتے رہے مگر حریت قیادت سے ملنا مناسب نہ سمجھا، بلاول بھٹو زرداری آزادکشمیر الیکشن کمیشن میں ”مودی کا جو یار ہے، غدار ہے” کا نعرہ لگاتا رہے مگر پیپلزپارٹی کے اور حکومت میں (صدر) آصف علی زرداری نے بارہا کہا کیونکہ مسئلہ کشمیر کو تیس سال کیلئے منجمد(Freeze) کر دیا جائے اب میں کشمیر کمیٹی نامی چیز کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروا کر زخموں پر نمک پاشی نہیں کرنا چاہتا، ان کے” دوست ”ہوئے آسمان، کے دشمن ہونے کی قطعاً ضرورت باقی نہیں رہی، پچھلے ماہ تیرہ جولائی کو یومِ شہدائے کشمیر منایا گیا جب عبدالقدیر نامی نوجوان کی تقریر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ”کہنا اسکا یہ تھا کہ مسلمانو! اب وقت آ گیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے، یاداشتوں اور گزارشوں سے ظلم وستم میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور نہ ہی توہین قرآن کا مسئلہ حل ہو گا تم اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائو اور ظلم کے خلاف لڑو، اس نے راج محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دو”۔
13 جولائی کو عبدالقدیر کے کیس کی سماعت تھی، زیر سماعت مقدمہ کی کارروائی سننے کی اجازت نہ ملنے پر مجمع کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نہ گولی چلا دی، اذان تو مکمل ہو گئی مگر 22نوجوانوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا، حکومتی طرزِ عمل مگر مسئلہ کشمیر پر کوئی قابل تعریف نہیں رہا، خارجہ پالیسی کو سمجھنا چھوٹی موٹی بقراتی سوچ کے بس کی بات نہیں، چاہ بار بندرگاہ سے دوستیاں سامنے آرہی ہیں، قابل اور تہران کا جھکائو دہلی کی طرف ہے جبکہ پاکستان کے ازلی دشمن کے علاوہ ان دو ہمسائیوں سے معاملات قابل تشویش ہیں، شیطان بزرگ کی طرف سے ابھی تک Do More کی رٹ جاری ہے، اس نے F-16طیارے فروخت کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے Diplomay is the art of knowing what not to say اب تک سرتاج عزیز کا ضعیف دماغ اور نواز شریف کاآپریشن کے بعد ” نوجوان” دل ابھی تک موثر خارجہ پالیسی کو تشکیل نہیںکر سکا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر خطے میں امن قائم ہونے کا خواب ، کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے ۔ جلتا ہے جن کا خون چراغوں میںرات بھر ان غمزدوں سے پوچھ کبھی قیمت سحر
-5 اخلاقی و جمہوری قدروں اور تربیت کی کمی ۔پاکستان کی 60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنی اصل ذمہ داریاں سے کماحقہ آگاہی حاصل نہیں کر پاتے، ایک ماسٹر ڈگری والے نوجوان کو ڈگری ملنے کے بعد یہ پتہ نہیں ہوتا کہ بے ثمر معاشرے کوثمر بار بنانے میں کیا کردار ادا کرنا ہے۔ کوئی بھی تعلیمی ادارہ کیئرئیر کونسلنگ پر توجہ نہیں دیتا بلکہ سرے سے ہی اسکا کوئی اہتمام نہیں۔
Poverty
-6 غربت، بیروزگاری و جہالت کا خاتمہ ۔نہ جمہوریت یہاں پنپ سکی ہے اور نہ اخلاقی قدریں۔ غربت کو تمام برائیوں کی جڑ کہا گیا ہے مگر معاشرتی توازن کے بگڑنے میں غیر جمہوری رویوں اور غربت کا بڑا عمل دخل ہے مگر معاشی عدم توازن کو حل کرنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی حل نہیں بلکہ حکومت سطح پر موثر تھنک ٹینک ہی موجود نہیں جو عوام دوست پالیسیاں بنا سکے اور مسائل کی اصل روح کا ادراک کر سکے بچوں کا ایک بڑا طبقہ چائلڈ لیبر کا شکار ہے لیکن ان کا پرسان حال پوچھنے والا کوئی نہیں بقول ساغر۔ جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اللہ کے نبی ۖ نے فرمایا ! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے نئے اجالے ، نئی راہوں کے متلاشیوں کو ملا کرتے ہیں۔ خلوص دل سے کام کرنے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کی جاتی ۔ کیسی عجیب بات ہے عوام کے خون پیسنے کی کمائی کو پانامہ کی نذر کر دیا جاتا ہے ۔ لیکن عوام تو انصاف ، روٹی کپڑا مکان اور بنیادی صحت اور معیاری تعلیم کے ذرے ذرے کو ترس رہے ہیں۔ یہ جنگ درحقیقت عوام کی جنگ ہے حکمران طبقے کی جنگ حکمران طبقہ لڑ رہا ہے ۔ عوام کی جنگ عوام کا سمندر لڑے گا۔ ظلم کا مٹ جانا ہی اسکا مقدر ہے ۔ بقول حافظ شیرازی
درے نہ بندے کندتا دیگرے نہ بکشاید کہ اللہ تعالیٰ کوئی دروازہ بند نہیں کرتا جب تک دوسرا نہیں کھولا جاتا ، شائد کسی وقت آبلہ پائوں کا ظہور ہو جائے اور سبو اپنا اپنا ، جام اپنا اپنا عوام کا نعرہ بن جائے۔