تحریر : اختر سردار چودھری عوامی تحریک تو پہلے ہی دھرنا ختم کر چکی تھی اور سانحہ پشاور پر عمران خان نے بھی دھرنا ختم کر دیا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ درست ہے اب پورا ملک دیکھ رہا ہے کہ کب حکومت عمران کے مطالبات پورے کرتے ہوئے دھاندلی کی تحقیقات اور اصلاحات کرتی ہے یا کہ ایک بار پھر اس کے لیے جیسا کی عمران خان نے کہا دوبارہ سڑکوں پر آنا ہو گا یہ تو وقت بتائے گا۔ اب حکومت، تحریک انصاف، عوامی تحریک اور جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر تمام جماعتوں کے پاس بھی وقت ہے کہ وہ منصوبہ بندی کریں۔لیکن اب پاکستان میںتبدیلی اشد ضروری ہے۔ اور کہنے کو تو کہہ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی ،عوامی تحریک اور تحریک انصاف تین جماعتیں اس سسٹم کا خاتمہ چاہتی ہیں اسے تبدیل کرنا چاہتی ہیں ۔لیکن جب ہم ان کے قول و فعل میں تضاد دیکھتے ہیں تو شک کی بادل منڈلانے لگتے ہیں ۔ دیکھا جائے توکسی حد تک درست یا غلط طریقہ کار لیے ہوئے اب تک صرف عمران اکیلا ہے جو اس سسٹم کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف پارلیمینٹ کی سبھی جماعتیں جن کی تعداد گیارہ بتائی جاتی ہے سب ایک ساتھ ہیں ۔ جماعت اسلای اور عوای تحریک بھی اس نظام کے خلاف بات تو کرتی ہیں دونوں اسلامی، جمہوری،خوشحالی اور تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں۔عوامی تحریک تو حقیقت میں اس نظام کو بدلنا چاہتی ہے لیکن جماعت اسلامی (کارکنوں سے معذرت کے ساتھ) کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس کے خلاف ہے اور کس کے ساتھ ہے۔
ہم کہنا یہ چاہتے ہیںکہ اگریہ تینوں ایک ہو جائیں تو پاکستان میں اسلامی ،جمہوری ،تبدیلی ،خوشحالی ممکن ہے جس کا یہ نعرہ لگا رہے ہیں ۔لیکن یہ تینوں آپس میں اتحاد کیوں نہیں کر رہیں ؟اصل بات یہ ہے کہ یہ تینوں پاکستان میں اسلامی نظام ،اصلی جمہوریت ،واضح تبدیلی،اور خوشحالی صرف بقلم خود لانا چاہتی ہیں کسی اور دوسرے کی حصہ داری برداشت نہیں کر سکتے ۔جماعت اسلامی کی سوچ یہ ہے کہ جو بھی تبدیلی آئے وہ صرف جماعت اسلامی لائے اسی طرح تحریک انصاف بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ اکیلی تبدیلی لا سکتی ہے ۔اس کا خواب عوامی تحریک نے بھی دیکھا ہے ۔میرا خیال ہے (ا للہ کرے یہ خیال غلط ہو )کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی جماعت اکیلی کامیاب ہو جائے اس لیے ان کو اتحاد کر لینا چاہیے ان کا اتحاد فطری ہے وقت کی ضرورت ہے ۔لیکن میری ان کی جو پاکستان میں تبدیلی چاہتے ہیں کی خواہش پر یہ لیڈر اپنی انا چھوڑ کر یہ بھی مشکل ہے کہ ان تینوں میں اتحاد قائم ہو جائے ۔یہ عام سی بات عام سافرد سمجھ سکتا ہے تو یہ تینوں مثلا عمران خان ، ڈاکٹر طاہرالقادری ، جناب سراج الحق کیوں نہیں سمجھ سکتے ان کے کارکن کیوں نہیں سمجھ سکتے ۔عوامی تحریک کے ساتھ بھی مذہبی لوگ ہیں اور جماعت اسلامی کے ساتھ بھی لیکن ان کے مسلک میں فرق ہے اس لیے بھی ان کا اتحاد مشکل ہے ناممکن نہیںہے کیونکہ جماعت اسلامی اور عوامی تحریک پہلے بھی بہت سی جماعتوںسے اتحاد کر چکی ہیں۔
ایک خاص بات تحریک انصاف کے ساتھ جو کارکن ہیں ان میں سے اکثریت ایسی کلاس کی ہے جو پہلی مرتبہ سیاست میں دلچسپی لے رہی ہے ۔ یہ تبدیلی تو عمران لا چکا ہے ۔ان چارماہ میں ایک بات سب نے جان لی ہے کہ اصولوں پر سودے بازی عمران نہیں کرتا ۔جیسا کہ وہ خود کہتا ہے کہ اللہ کوشش کو دیکھتا ہے نتیجہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اور یہ حقیت ہے کہ عمران نے کوشش کا حق ادا کر دیا ۔اگر اس وقت الیکشن ہوں تو تحریک انصاف ملک بھر میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی ۔لیکن اگر 2018 میں ہوتے ہیں تو ایسا نہیں ہو گا اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو اس کالم کا موضوع نہیں ہے ۔(پھر سہی)
Imran Khan and Tahir ul Qadri
عمران دھاندلی کے خلاف انصاف لینے اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے شہدا کا انصاف لینے سڑکوں پر آئے ۔طاہر القادری کسی حد تک مایوس ہو کر اپنا طریقہ کار تبدیل کر چکے ہیں اور میرا خیال ہے (جو غلط ہی ہو گا)کہ عوامی تحریک نے جلد کوئی قدم نہ اٹھایا تو وقت گزر جائے گا اور عوامی تحریک ایک پریشر گروپ بن کر رہ جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کارکن ہر حلقے میں موجود ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی نہیں کہ الیکشن جیت سکیں بے شک وہ اپنے قائد سے مخلص ہیں اس لیے عوامی تحریک کو اشد ضرورت ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ دوبارہ کھڑی ہو جائے عوامی تحریک کے پاس جو منشور ہے ایسا منشور کسی اور جماعت کے پاس نہیں ہے اس لیے ایسے افراد کو ،قائد کو،منشور کو ضائع نہیں ہونا چاہیے ۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے اس بات کو محسوس کیا کہ اگر اس نے کوئی قدم نہ اٹھایا تو اس کے وجود کو خطرہ ہے اس لیے اس نے تین روزہ اجتماع کیا اور اپنے کارکن کو تبدیلی کے ادھر ادھر جانے سے روکنے کی کوشش کی جماعت اسلامی کے کارکن کی ہر حلقے میں قابل ذکر تعداد موجود ہے لیکن اتنے نہیں کہ جماعت اسلامی الیکشن میں تنہا اکثریت حاصل کر سکے اس لیے جماعت اسلامی کو بھی ضرورت ہے کہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کسی پارٹی سے اتحاد کرے ایسا جماعت ماضی میں کرتی رہی ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ تینوں جماعتیں ایک بات کہہ رہی ہیں ان کے مقاصد ایک ہیں منشور بھی کافی حد تک ایک ہے ان تینوں جماعتوں کے کارکن بھی ان سے مخلص ہیں ان میں خاص کر لیڈروں میں سے کسی پر کرپشن کا بھی داغ نہیں ہے ۔یہ عوام کے خیر خواہی کے دعوے دار ہیں لیکن ان کا طریقہ کار ایک نہیں ہے ۔کیا یہ اسلام ،پاکستان ،عوام کی خیرخواہ ہیں ؟ ان سے مخلص ہیں ؟ اور جیسا کہہ رہے ہیں ویسا حقیقت میں چاہتے بھی ہیں؟ ۔جواب پہلے دیا جا چکا ہے یہ تینوں پاکستان میں اسلامی ،جمہوری ،تبدیلی ،خوشحالی لانا چاہتے تو ہیں لیکن صرف خود ۔کوئی دوسرلائے تو یہ ان کو پسند نہیں ہے یہ ان کو پسند نہیں کہ وہ دوسرا کامیاب ہو اس کو ناکام کرنے کے لیے جمہوریت کا نام دے کر بچانے کے لیے اپنا کندھا پیش کر دیتے ہیں ،ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھا کر ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ کل جب یہ انہی مقاصد ، انہی یا ان جیسے نعروں ،کو لے کر یہ جماعتیں اسی سسٹم کے خلاف میدان میں آئیں گی تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا جیسا یہ اب دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں ۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سسٹم جس کے خلاف یہ تینوں جہاد کر رہے ہیں وہ ایسے ہی چلتا رہے گا ۔اس لیے بھی کہ جو اس کو تبدیل کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں ان میں اتحاد نہیں ہے۔ اور جو اس سسٹم کو بچانا چاہتے ہیں ان میں اتحاد ہے۔
جن کے اس سسٹم سے مفادات وابستہ ہیں وہ تو نہیں چاہتے کہ یہ سسٹم کسی کے بھی ہاتھوں ختم ہو ۔کچھ لوگ اس سسٹم کو تقدیر کا لکھا سمجھ رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ انصاف ،تبدیلی،خوشحالی،اسلامی نظام ،حقیقی جمہوریت ممکن نہیں ہے اس لیے توانائی کیوں ضائع کی جائے ۔ مجھے اس کالم میںان تینوں جناب سراج الحق ،ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان سے کہنا یہ ہے کہ اگر وہ عوام ،پاکستان،اور اسلام سے مخلص ہیں تو اپنی انا چھوڑ کر اتحاد کر لیں صرف یہ ہی راستہ ہے اس سسٹم کے خاتمے کا نہیں تو یہ سسٹم یوں ہی چلتا رہے گا۔