جماعت اسلامی سٹی ڈسٹرک راولپنڈی کے زیر اہتمام راولپنڈی پریس کلب کے سبزا زار میں تقریب یوم تاسیس جماعت اسلامی کا انتظام کیا گیا تھا۔بارش ہونے کی شکل میں راولپنڈی پریس کلب کے حال میں بھی متبادل انتظام بھی کیا گیا تھا۔ وہیں پر نماز مغرب ادا کرنے کے بعد پروگرام شروع ہوا۔اس تقریب کے مہمان خصوصی جماعت اسلامی پاکستان کے جرنل سیکر ٹیری امیر العظیم صاحب تھے۔ امیر اعظیم صاحب اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ نوجوان ہیں اور سیاست کے دائو پیچ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ خوش آیند بات ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کو مرکزی قیادت اسلامی جمعیت طلبہ ہی فراہم کر رہی ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب، موجودہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب،موجودہ سیکر ٹیری جرنل جماعت اسلامی امیر العظیم صاحب، موجودہ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ صاحب،موجودہ نائب امیر جماعت اسلامی سید راشد نسیم صاحب وغیرہ سارے صاحبان اپنے اپنے وقتوں میںاسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم ا علیٰ رہ چکے ہیں۔ یہ حضرات پاکستان کے چپے چپے سے واقف ہیں۔انہوں نے اپنی جوانیاں اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے وقف کی ہوئی ہیں۔
ماشاء اللہ نوجوان اور تازہ دم ہیں۔ان ہی سے کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پروگرام مغرب کی نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوا ۔اس کے بعد نعت شریف پڑھی گئی۔اسٹیج سیکر ٹیری کے فرائض سیکر ٹیری سٹی ڈسٹرک جماعت اسلامی راولپنڈی نے ادا کیے۔ جماعت اسلامی کے تاسیسی پروگرام سے خطاب کرنے کے لیے پہلے جماعت اسلامی کے پرانے رفقاء کا انتخاب کیا گیا تھا۔مرکزی مقرر امیر جماعت اسلامی سٹی ڈسٹرک راولپنڈی کے امیر سید عارف شیرازی صاحب تھے۔ آخر میں سیکر ٹیری جرنل امیر العظیم صاحب نے جماعت اسلامی تشکیل ، قوبانیاں اور آگے کے لاح عمل پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔پہلا مقرر پی پی ١٧ کے حکیم منیر صاحب تھے۔
انہوں نے جماعت اسلامی میں داخلے اور آخر دم تک اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے رکھنا کا ذکر کیا۔دوسرا مقرر سابق امیر راولپنڈی نقشبندی صاحب نے کہا کہ سابق امیر جماعت اسلام سید منور حسن صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔جماعت اسلامی میں اس لیے شامل ہوا تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ گو کہ میری خواہش ابھی تک پوری نہ ہوسکی۔ اور نہ معلوم کب پوری ہو گی۔ مگر ہمیں ہمیشہ اسلامی انقلاب پر نظر رکھنی چاہیے۔ یک سو ہو کر اللہ کے دین کے لیے کام کرنا چاہیے۔ میںابھی بھی تازہ دم ہوں کہ ایک نہ ایک دن ہم پاکستان میں اسلامی نظام کی برکات سے مستفیض ہونگے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے میڈیاکوآر ڈینیٹرشاہد شمسی صاحب نے خطاب میں فرمایا کہ میں اور سید منور حسن صاحب جب این ایس ایف سے نکل کر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے تو ہمارے لیے تو اسی وقت سے اسلامی انقلاب آ گیا تھاکیونکہ جماعت اسلامی میں آنا ہی ہمارے لیے اسلامی انقلاب ہے۔میری امید ہے کہ میری زندگی میں ہی پاکستان میں اسلامی انقلاب آ جائے گا۔اگلے مقرر حنیف چوہدری صاحب تھے۔ فرمایا کہ میں ١٩٦٩ء میں جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوا۔گورڈن کالج راولپنڈی میں پہلے ہم الیکشن دوسری طلبہ تنظیموں سے مل کر لڑتے تھے۔
کبھی شیخ رشید اور کبھی کسی کوکامیاب یاب کرایا کرتے تھے۔ مگر ١٩٦٩ء میں اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے بازوں پر بروصہ کرتے ہوئے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد اکثر اسلامی جمعیت طلبہ ہی الیکشن جیتتی رہی۔اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ امیرالعظیم صاحب تھے۔جماعت میں شریک ہوا تو کونسلر کا انتخاب جیتا۔١٩٨٥ء میں غیر جماعتی الیکشن ہوئے۔ پھر ١٩٩٠ء کے الیکش میں صوبائی سیٹ پر کامیاب ہوا۔ہمیں تازہ دم ہونا چاہیے اسلامی انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔اس کے بعد امیر جماعت اسلامی ڈسٹرک راولپنڈی جناب سید عاف شاہ شیرازی صاحب نے خطاب کیا۔انہوں نے فرمایا کہ ہم نے طے کیا کہ نوجوان رہنما امیر العظیم صاحب کو راولپنڈی میں جماعت کے یوم تاسیس پر بلانا ہے۔
اپنی تقریر میں کہا کہ جب ١٩٧٠ء میں جماعت اسلامی کے ٢٩ سال مکمل ہوئے تو امیر جماعت اسلامی سید ابواعلیٰ موددی صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ١٩٢٣ء میں مسلمانوں کی خلافت عثمانی کو ختم کیا گیا۔ ہندوستان میں خلافت عثمانیہ کے دوبارہ اجرا کے لیے تحریک چل رہی تھی۔ اس کے ساتھ تحریک آزادی پاکستان بھی زوروں پر تھی۔اس دوران گاندھی نے کہا تھا کہ ہم مسلم لیڈر شپ سے بات نہیں کریں گے۔ بلکہ عام مسلمانوں سے گفت شنید کرکے انہیں واپس ہندو بنائیں گے۔ہندوستان کے مسلمان اسلامی عثمانی خلافت کے لیے فنڈجمع کرتے تھے۔ جبکہ کہ عثمانی قومیت کے نام پر لڑ رہے تھے۔ قوم پرست کمال اتاترک نے ترکی میںاسلام کی ساری نشانیاں مٹا کر قومیت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔تحریک آزادی ہند کا مطالعہ کیا تو سوچا کہ جب انگریز ہندوستان سے چلے جائیں گے تو ہندو مسلمانوں کو غلام بنا لیں گے۔اسی سازش کو محسوس کرتے ہوئے کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی۔رسالے ترجمان القرآن کے ذریعے مسلمانوں کو سبق یاد کرایا۔ اس
٢ کے لیے مضامن شائع کرنے کا سلسلہ جاری کیا۔ مسلمانوں میں مغربی سوچ کو زائل کرنے کی کوشش کی۔تحریک پاکستان کامیاب ہو جائے گی تو ہندوستان میں رہ جانے والوں مسلمانوں کا کیا ہو گا۔مولانا موددی نے ١٩٤١ء سے ١٩٤٧ء تک پٹھان کوٹ جمال پور میں رہے۔پاکستان بننے کے بعد اس کو اسلامی کی بنیاد پر چلانے کے لیے اسلامی لٹریچر اور کارکن تیار کیے۔١٩٤٧ء میں پاکستان بنا تو جماعت اسلامی نے تعلیم اداروں، فیکر ٹیروں اورسیاست میں سیکولرسٹو ںاور کیمنسٹوںکو شکست فاش دے کر اسلامی آئین میں قراداد مقاصد شامل کروائی۔ میں جماعت اسلامی کے کارکنوں سے کہتا ہوں کہ وہ جماعت اسلامی کے لٹریچر کا مطالعہ کریں ۔ اپنے بچوں اور خاندان کو اس سے روشناس کرائیں اور اسے پھیلائیں۔ہمارے جماعت اسلامی کے سدا بہار کارکن سرور صاحب جب اللہ کو پیارے ہوئے تو ان کے ایک دوست نے ان کے بچوں سے کہا کہ با با جی سرور صاحب کی ایک پوٹلی ہمارے ہاںہے اُسے لے جائیں ۔ جب پوٹلی کو کھولا گیا تو اس میں جماعت اسلامی کے پمپلٹ اور کچھ اعانت کاحساب کتاب نکلا تھا۔ہمیں ایسی پوٹلیاں چھوڑ کے جانا چاہیے نہ کہ جائیدادیں۔اب سید موددی اور سید قطب کی صدی ہے۔اس لیے جاعت اسلامی کے لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہیے۔آخرمیں امیر العظیم صاحب سیکر ٹیری جماعت اسلامی پاکستان نے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ ١٩٤١ء میں لاہور میں ٧٥ افراد اور ٧٥ رونے ١٤ آنے کے اثاثے سے جماعت اسلامی کا آغاز ہوا۔چار شعبوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔تعلیم،نشرو اشاعت،تنظیم اور تربیت۔٢٦ اگست ١٩٤١ء میں ٧٥ آدمی ایک داستان تھے۔بندگی خدا اور پیروی رسول ۖ کا ماٹو تھا۔موددی نے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ منافقت چھوڑ دو۔ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائو۔اس وقت لوگ انگریزی نظام حکومت کی خرابیاں نہیں جانتے تھے۔
قانون اگر انگریزی ہے تومسلمان اس کے مدد گار اور محافظ بنے ہوئے ہیں۔ نظام حکو مت اگر انگریزی ہے توچلا نے والے مسلمان ہیں۔ مولانا نے اسی کو منافقت کہا تھا۔ مسلمانوں کو یاد کرایا کی یہی منافقت ہے اسے بدلو اور اسے چھوڑو ۔ قرآن اور حدیث کی دعوت کو پکڑو اور دنیا پر چھا جائو۔١٩٤١ء میں یہ کام مشکل تھا۔کامیابی نہ ہوئی۔٧٥ لوگوں نے موددی کا ساتھ دیا اور امیر جماعت اسلامی چنا۔جس وقت کہا جاتا تھا کہ اسلام کا نظام ِحکومت سے کیا لینا دینا ہے ۔ یہ بے دین لوکوں کا مشغلہ ہے۔مولانا نے اس کے جواب میںدنیا میں اسلام نظام ِحکومت کو روشناس کرایا۔یہ کام دینیات اورخطبات کی کتابوں نے کیا۔دنیات کا ساری دنیا کی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ باکسر کلے نے اس کا انگریزی ورژن جو پروفیسر خورشید احمد نائب جماعت اسلامی پاکستان نے کیا”ٹو ورڈز انڈر اسٹیڈنگ اسلام”(to word under stading islam) (پڑھ کر اسلام قوبول کیا تھا۔ مولانا موددی نے سنت کی آئینی حیثیت کتاب لکھ کر بڑے اسلام، دشمنوں کا منہ بند کر دیا۔اس کو پڑھ کر پاکستان کے مشہور قانون دان، اے کے بروہی صاحب اسلام کے پر امن اور سلامتی والے دین کو نافذ کرنے کے موددی کا ساتھ دینے پر تیار ہوئے تھے۔ اور ایک تاریخی بات کی تھی کہ جب اللہ جب قیامت میں مجھے میرے اعمال کا پوچھ گا میں کہوں گا میں موددی کی رفاقت لے کر آیا ہوں۔ سود،پردہ اور خلافت ملوکیت کتابیں تصنیف کر کے مولانا نے اسلامی ریاست میں در آنے والی کمزرویوںکی نشان دہی کر کے آئندہ کی صحیح سمت کا راستہ بتایا۔
جماعت اسلام کی جدو جہد اور لٹریچر نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ انسانیت کی فلاح صرف اور صرف اسلامی نظام حکومت یعنی حکومت الہیا میں ہے۔جس میں مسلم اور غیر مسلم کے انسان ہونے کے ناتے حققوق برابر ہیں۔ انگریزوں کے جانشین پاکستان کے حکرانوں نے اس نیک کام کرنے کی پاداش میں جماعت اسلامی کے بانی موددی کو پہلے ٢٥ ماہ پھر ١٠ ماہ اور آخر میں پوری شوریٰ کو گرفتار لر لیا۔ بقول شاہر اسلام، اکبر الہ آبادی کے مطابق ”کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں”۔جماعت کے تعلیمی اداروں کو آزاد خیال بھٹو صاحب نے قومی تویل میں لیا۔ جماعت اسلامی نے الطاف حسن، عبدالقادر، مجیب الرحمان شامی، سید صلاح الدین ،ارشاد حقانی صاحبان اور ان جیسے درجوں اسلام کے شیدائی پیدا کیے۔جماعت نے میاں طفیل ، قاضی حسین احمد، منور حسن اور سراج الحق صاحبان جیسے درویش صفت رہنما دیے۔جماعت اسلامی کے پروفیسرر غفور احمد کی کوششوں سے ١٩٧٣ء کا اسلامی آئین منظور ہوا۔موددی نے اسلام کی طاقت سے خدا بیزار کیمونسٹ سویٹ یونین کو ماسکو، سرمایہ درانہ نظام کے حامی امریکا کو واشنگٹن اور لندن اور قومیت کے پرچارک کو جرمنی میں چیلنج کیا۔ لوگ جماعت اسلامی کی کامیابی کو پارلیمنٹ کی سیٹوں سے جانچتے ہیں۔ کیا یہ ساری کامیابیاں نہیں ہیں۔ انشاء اللہ ایک دن آئے گا جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں بھی اکثریت حاصل کر لے گی۔ جماعت اسلامی پاکستان کی طاقت ور پوزیشن حاصل کر چکی ہے۔ کئی شعبوں میں ترقی کرتی ہوئے، اپنے جاندار اسلامی نظام زندگی کے بیانیے، اپنے تعین کردہ ا یجنڈے اور اپنے جھنڈے کے تحت ماس موومنٹ بن کر انتخابی مورچہ بھی فتح کر لے گی۔ انشاء اللہ۔تقریب کا خاتمہ دعا پرہوا۔ حاضری کے لیے عشایے کا انتظام بھی تھا۔