تحریر : میر افسر امان جماعت اسلامی، پاکستان کی کرپشن فری جماعت ہے۔جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن صاحب نے ایک موقعہ پر پریس سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کے کونسلر، یو نین کونسل کے ناظم، صوبائی و قومی اسمبلی کے ممبران سے لے کر پاکستان کی سینیٹ کے مختلف انتخابات میں اب تک تقریباً ایک ہزار منتخب ممبران ہوتے رہے ہیں مگر الحمد اللہ ان میں سے کسی ایک پر بھی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔اب تو سپریم کورٹ میں جاری کرپشن میںنا اہل وزیر اعظم کے مقدمے کے دوران آبزرویشن کے دوران پاکستان کے معززچیف جسٹس صاحب نے کہا کہ اگر پاکستان کے آئین کی٦٢۔٦٣ شق پر دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کے امیر،سینیٹر سراج الحق صاحب کے علاوہ کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ اس پر پورا نہیں اترے گا؟
ہمیں یہ ہر گز یہ ثابت نہیں کرنا کہ جماعت اسلامی کے ممبران یا اس کو چلانے والے ذ مہ دار حضرات فرشتے ہیں ۔ان میں بھی کمزوریاں ہوں گی۔ صرف یہ عرض کرنا مقصد ہے کہ وہ بھی انسان ہیں ۔وہ بھی اسی معاشرے میں رہتے بستے ہیں۔ ان کی بھی کچھ خواہشات ضرور ہوتی ہونگی۔ مگر جماعت اسلامی ان کی تربیت کچھ اس انداز سے کرتی ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگوں کی نظر، اس فانی دنیا کی خواہشات کے بر عکس آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی پر ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ اختیارت میںہوتے ہوئے بھی عوام کے پیسے پر ہاتھ صاف نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق ملک کے خزانے کو ملک کے عوام کی امانت سمجھتے ہیں۔ہم نے نوٹ کیا ہے کہ ممبرپارلیمنٹ ہوتے ہوئے جو الائونس انہیں حکومت سے ملتا ،عوام کے ضروری خرچہ ،یعنی دفاتر،فون اور انٹرٹینمنٹ کرنے کے بعد جو رقم بچتی ہے وہ جماعت اسلامی کے فنڈ میں جمع کر وا دیتے ہیں۔راقم کو اس کاتجربہ مرحوم عبدالستار افغانی جو ایک ٹرم ممبر قومی اسمبلی اور دو دفعہ کراچی کے میئر رہے ہیں،کے ساتھ کام کرنے سے ہوا۔ ان کو جو رقم قومی اسمبلی سے الائونس کے طور پر ملتی۔ عوام سے رابطے کے لیے قائم کردہ دفاتر کے اخراجات کے بعد بچ جانے والے رقم میرے ذریعے جماعت اسلامی کے فنڈ میں جمع کرا دیاکرتے تھے۔ہمارے علم کے مطابق جماعت اسلامی کے باقی ممبران پارلیمنٹ بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔
اصل میں جماعت اسلامی کراچی نے راقم کو الیکشن ٢٠٠٢ء میں ان کی سیٹ این اے ٢٥٠ کا الیکشن انجارج مقرر کیا تھا۔ متحدہ مجلس عمل میںسیٹوں کی تقسیم میں جماعت اسلامی کو قومی اسمبلی کی این اے٢٥٠ ملی تھی۔ اس سیٹ کے نیچے سندھ اسمبلی کی دو صوبائی سیٹوں میں،سندھ اسمبلی سیٹ نمبر١١٢ پر جمعیت علمائے پاکستان( نورانی ) کے محمود احمد صدیقی صاحب اور سندھ اسمبلی سیٹ نمبر ١١٤ پر جمعیت علمائے اسلام ( سمیع) کے خواجہ اظہارالاسلامایڈوکیٹ صاحب کو ملی تھیں۔ متحدہ مجلس عمل کے کراچی سے قومی اسمبلی کی سیٹ نمبر این اے٢٥٠ پر مرحوم عبدالستار افغانی ٢٠٠٢ء کے الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے میں متحدہ قومی موومنٹ کی نسرین جلیل صاحبہ تھیں،جنہیںباوجود کہ الیکشن میں زور،دزبردستی اور جعلی ووٹنگ کے شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔عبدالستار افغانی الیکشن کمیشن کی طرف سے کراچی میں چار دوسرے امیدواروں کے ساتھ کامیاب قراد دیے گئے تھے۔دو صوبائی سیٹوں پر بھی متحدہ مجلس عمل کے دونوں امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ مگر نتائج مرتب کرتے وقت ان کو ہرا دیا گیا۔ عبدالستار افغانی جماعت اسلامی کے ایک عام سے کارکن تھے۔ وہ کراچی میں ایک جوتوں کی دکان پر ملازمت کرتے تھے۔
لیاری لی مارکیٹ کے قریب پٹھان مسجد کے پاس اپنی خاندانی بلڈنگ میں اسی گز کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھے۔جماعت اسلامی نے انہیں کونسلر کی سیٹ پر انتخاب لڑایاتھا۔ جب پہلی دفعہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کرکراچی کے میئر بنے تو میئر کی رہائش کے لیے مختص بنگلے، جوشہر کے پوش علاقے کوئین روڈ پر واقع ہے میں منتقل نہیں ہوئے۔کراچی میٹروپولیٹن سٹی کے دفتر میں کام کاج کے بعد اپنے اسی گز کے فلیٹ میں چلے جاتے۔ جب دوسری دفعہ لوکل گورنمنٹ میں مزدوروں کی سیٹ پر لیکشن جیت کر کراچی کے میئر بنے ۔تو پھر بھی سرکاری رہائش گاہ استعمال نے کی۔آخری مرتبہ ڈکٹیٹر ضیا الحق کے دور حکومت میںجب کراچی کے حقوق کے لیے سندھ اسمبلی تک مارچ کیا۔ تو اپنے ١٠٢ ممبران کے ساتھ گرفتار کر لیے گئے۔اُس وقت انگریزوں کی ایجاد کردہ دفعہ ١٤٤ کراچی میں نافذ تھی۔ اس دفعہ کے تحت پانچ یا پانچ سے زیادہ لوگ ایک جگہ جمع یا ایک ساتھ مل کر چل نہیں سکتے۔ تو قانون کا اعترام کرتے ہوئے دو دو کی ٹولیوں میں، گلوں میں نام کی تختیاں لٹکائے ہوئے، اپنے ١٠٢٫ کونسلوں کے ساتھ، کراچی کے عوام کے حقوق کے لیے ،کراچی میٹروپولیٹن کے دفتر سے سندھ اسمبلی تک مارچ کیا ۔ تو ڈکٹیٹر ضیا الحق کی قائم کردی سندھ صوبائی حکومت نے ١٠٢ کونسلروں کے ساتھ گرفتار کر کے کراچی کی جیل میں ڈال دیا۔میئر کراچی عبدالستارافغانی اور اس کے کونسلروں کا کہنا تھا کہ پورے کراچی کی سڑکیں تو کراچی کے عوام کے ٹکیس سے کراچی کی میٹروپلیٹن بنائے اور ویکل ٹیکس سندھ کی صوبائی حکومت وصول کرے۔ یہ نا انصافی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔جو شاید اب تک صوبائی حکومت ہی وصول کر رہی ہے۔
جب عبدلستار افغانی کراچی جیل میں قید تھے تو اس کی فیملی اس سے ملاقات لیے پبلک ٹرانسپورٹ ،یعنی بس پر سوار کر جیل ملنے جاتی تھی۔جس دن ان کواور ان کے ١٠٢کونسلروںں کو رہائی ملی تھی۔ تو ہم بھی نظارہ دیکھنے گئے تھے۔ کافی لوگ جیل کے احاطے کے باہر کھڑے تھے۔ افغانی صاحب کے بیٹے پرانی گاڑیوں کے ایک ڈیلر سے بات کر رہا تھا جو ہمارا پڑوسی تھا۔ افغانی کے بیٹے نے ڈیلر سے کہا، کیا پتہ ہے آج بھی ہمارے والد کو حکومت رہا کرے یا نہ کرے۔ میری والدہ نے کمیٹی ڈالی تھی۔ جس کے پیسے اسے ملے ہیں۔ وہ کہتی ہیں مجھے لیاری سے دو بسیں بدل کر جیل میں میاں سے ملنے آنا پڑتاہے۔چالیس۔ پنتالیس ہزار کی کوئی پرانی گاڑی خرید وا دیں۔ ( یہ ٩٠ ١٩ء کی بات ہے) تاکہ آئندہ اس پر سوار ہو کر میاں سے ملنے آیا کروں۔ مجھے یہ بات سن کے جماعت اسلامی کے کارکنوں کی ایمانداری پر رشک آیا۔ایک شخص جو دو دفعہ کراچی میٹرپولیٹن جیسے شہر کا دو دفعہ میئر رہ چکا ہے اس کے گھر کے ایسے حالت ہیں۔
صاحبو!یہ دنیا فانی ہے سب کچھ جہاں ہی رہ جائے گا۔ آخرت وہ نیک اعمال ہی جائیں جو انسان اس مہلت عمل میں کرے گا۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن سے ہی سیاست دان اللہ سے غافل ہو کر عوام کے پیسیوںسے عیاشیاں کرتے ہیں۔ باہر ملک بنک بیلنس اور جائدادیں رکھتے ہیں۔ان کے بچے باہر ملکوں میں تجارت کرتے ہیں۔ علاج ان کا باہر ملکوں میں ہوتا ہے۔ ان کے بچے ساری عمر باہر گزار کر اپنی ملکی زبان بھی صحیح طریقے سے نہیں بول سکتے اور مورثی پارٹی کے چیئر مین بنتے ہیں۔ایسے لوگوں کو پاکستانی قوم کی پریشانیوں کاکوئی بھی علم نہیں۔ کہاں کرپشن میں لدھے ہوئے سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور کہاں کرپشن فری جماعت اسلامی کے منتخب ممبران اسمبلیاں ! اللہ سے دعا ہے کہ آئندہ الیکشن میں اسلامی جمہوری پاکستان کو ایماندار قیادت نصیب کرے آمین۔